فروری 2019 کے بعد بھارت اور پاکستان نے اپنی عسکری صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے، اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موجودہ کشیدگی کے تناظر میں محدود تصادم بھی سنگین تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، جس پر وزیراعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کے ”ہوش اڑا دینے والے“ انجام کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے اس حملے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر نشانہ بنایا گیا تو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔
2019 کی جھڑپ اور اس کے بعد کی عسکری پیش رفت
2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر فضائی حملے کا دعویٰ کیا۔ جواباً پاکستان نے بھی فضائی کارروائی کی اور ایک بھارتی طیارہ مار گرایا۔ یہ جھڑپ دو روز تک جاری رہی اور کسی بڑے تصادم سے امریکی مداخلت کے ذریعے بچاؤ ممکن ہوا۔
دونوں ممالک 1948، 1965 اور 1971 میں تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں، جب کہ کشمیر جیسے حساس خطے پر بے شمار جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ دونوں نے 1990 کی دہائی میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ اور اب کشمیر کو دنیا کا ایک ”سب سے خطرناک فلیش پوائنٹ“ قرار دیا جاتا ہے۔
عسکری توازن اور خطرناک امکانات
روئٹرز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال دونوں ممالک کی آخری حد ہو گا، تاہم محدود جنگ بھی قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ایسے کسی تصادم میں طیارے، میزائل یا ڈرونز کا استعمال نمایاں ہو گا، اور دونوں ممالک کی عسکری صلاحیتیں قریب قریب تصور کی جاتی ہیں۔ تاہم طویل مدتی تصادم میں بھارت کے زیادہ وسائل فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک اسٹمسن سینٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام سے وابستہ ماہر فرینک او ڈونل نے کہا کہ 2019 کے بعد دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں میں خطرہ مول لینے کی صلاحیت بڑھ چکی ہے کیونکہ اُس وقت ایٹمی ہتھیار استعمال کیے بغیر بھی تصادم ممکن ہوا۔
جدید طیارے، میزائل اور دفاعی نظام
2019 کی جھڑپ کے بعد بھارت نے فرانس سے 36 جدید رافیل جنگی طیارے حاصل کیے، جنہیں اب بحریہ میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ جواباً پاکستان نے چین سے جے-10 سی طیارے حاصل کیے، جو رافیل کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان طیاروں کے ساتھ میٹیور (رافیل) اور پی ایل-15 (جے-10) جیسے جدید فضائی میزائل نصب ہیں جو نظر کی حد سے باہر ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
فضائی دفاع میں کمزوری کو دور کرنے کے لیے بھارت نے روسی ساختہ ایس-400 سسٹم حاصل کیا، جب کہ پاکستان نے چین سے ایچ کیو-9 سسٹم حاصل کیا، جو روسی ایس-300 پر مبنی ہے۔
بھارتی جنگی خواب، پاکستانی دفاعی حقیقتوں میں دفن — دہلی کی ہر جارحیت کا انجام رسوائی
”جھڑپ کی گونج“ اور سیاسی دباؤ
بھات کے سابق ایئر وائس مارشل انیل گولانی کے مطابق بھارت کی عسکری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن مکمل جنگ دونوں ممالک کا ارادہ نہیں۔ تاہم عوامی دباؤ اور سیاسی بیانات جھڑپ کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
ادھر چین، بھارت کا حریف اور پاکستان کا قریبی اتحادی، اس ممکنہ تصادم میں غیر اعلانیہ کردار ادا کر سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ پاکستان کو عسکری سامان فراہم کر رہا ہے۔
ڈرون اور میزائلوں کی نئی دوڑ
دونوں ممالک نے ڈرونز کی جدید رینج حاصل کی ہے۔ بھارت اسرائیل سے ہرون مارک 2 اور امریکہ سے پریڈیٹر ڈرونز لے رہا ہے، جب کہ پاکستان نے ترکی سے بائراکتار ٹی بی 2 اور جدید آقنچی ڈرون حاصل کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے حالیہ دنوں میں ایک 450 کلومیٹر تک زمین سے زمین تک مار کرنے والے ابدالی بیلسٹک میزائل اور 120 کلو میٹر مار کرنے والے فتح سسٹم کا تجربہ بھی کیا ہے، جس کا مقصد دشمن کو یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان ہر قسم کے دفاع کے لیے تیار ہے۔
”2019 سے مختلف منظرنامہ“
پاکستان کے سابق فائٹر پائلٹ اور دفاعی تجزیہ کار قیصر طفیل کا کہنا ہے کہ 2019 میں بھارت پاکستان کے خلاف دفاعی برتری حاصل کرنے میں ناکام رہا، لہٰذا اس بار وہ زیادہ جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرے گا، جو خطرے کو اور بڑھا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم 2019 سے آگے نکلے تو یہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کا براہ راست تصادم دنیا کے لیے تباہ کن ہو گا۔‘
پاک بھارت جنگ کے امکان پر امریکی سی آئی اے کی پرانی خفیہ رپورٹ سامنے آگئی
امن یا تباہی؟
اگرچہ دونوں ممالک مکمل جنگ نہیں چاہتے، مگر جدید ہتھیاروں کی دوڑ، سیاسی بیانات اور اندرونی دباؤ اس خطے کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر رہے ہیں۔ ذرا سی غلط فہمی یا غلط قدم ایٹمی تصادم کے خطرے کو جنم دے سکتا ہے — ایک ایسا خطرہ جس کے نتائج نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوں گے۔