اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی

0 minutes, 0 seconds Read

غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی جارحیت کا شروع ہونے والا سلسلہ تاحال جاری ہے، صبح سویرے غزہ پر اسرائیل کے حملے میں 24 فلسطینی شہید ہوگئے۔ جبکہ اس کا دائرہ مزید وسیع کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ سٹی پر تازہ بمباری کے نتیجے میں24 فلسطینی شہید اور 10 زخمی ہو گئے، ڈرون حملے کے نتیجے میں 5 بچے بھی شہید ہوئے، جبالیہ اور بیت لاحیہ میں بھی حملوں کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی کواڈ کاپٹر سے ریسکیو ورکرز پر فائرنگ کے سبب 25 افراد کو ملبے سے نکالنے کےلیے امدادی کارروائیاں شروع نہ کی جاسکیں۔

دوسری جانب عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی جنگی کابینہ کی جانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کا دائرہ وسیع کرنے کی منظوری دی گئی ہے، غزہ میں زمینی کارروائی کا دائرہ وسیع کرنے کےلیے ہزاروں ریزرو اسرائیلی فوجیوں کو طلب کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی فوج نے غزہ میں کارروائیوں میں تیزی لانے اور ان کا دائرہ بڑھانے کے لیے ہزاروں ریزرو فوجیوں کو جنگ کے لیے طلب کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔

ایک اسرائیلی حکام نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ وزیر نے اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل ایال زامیر کے تجویز کردہ منصوبے کو یک آواز ہو کر منظور کیا، جس کا مقصد غزہ میں حماس کو شکست دینا اور اغوا شدگان کو واپس لانا ہے۔

اس منصوبے میں غزہ کی پٹی کا قبضہ اور اس کے علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھنا شامل ہے، جس سے حماس کو امدادی سامان کی تقسیم میں مشکلات پیش آئیں گی اور اس پر شدید حملے کیے جائیں گے۔

اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ منصوبہ مہینوں تک جاری رہے گا اور پہلے مرحلے میں غزہ کے مزید علاقوں کا قبضہ اور ”بفر زون“ کو توسیع دینے کا عمل شامل ہے، جو اسرائیل کو حماس کے ساتھ جنگ بندی اور اغوا شدگان کی واپسی پر مذاکرات میں مزید فائدہ دے گا۔

اسرائیلی فوج نے حماس کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی جو 7 اکتوبر 2023 کو سرحد پار حملے کے بعد آغاز ہوئی، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 افراد کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے غزہ میں 52,567 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 2,459 افراد اسرائیلی حملوں کے دوبارہ آغاز کے بعد مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ غزہ میں قید یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کے عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد، حالیہ فوجی کارروائی، اسیروں کی رہائی کی ضمانت دینے میں ناکام رہی ہے اور اس تنازعے کے حوالے سے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے مقاصد پر سوالیہ نشان ہے۔

نتن یاہو پر اکثر یرغمالیوں کے اہل خانہ اور مخالفین کی جانب سے ڈیل کے لیے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے اور سیاسی مقاصد کے لیے جنگ کو طول دینے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے تاہم ان الزامات کی وہ تردید کرتے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اب نئے علاقوں میں کارروائیاں کرے گی اور زمین کے اوپر اور نیچے موجود تمام تنصیبات کو تباہ کر دے گی۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ میں نئے سرے سے فوجی کارروائیوں میں توسیع کی منظوری دے دی ہے۔

لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ آئندہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطے کے دورے کے اختتام تک یہ کارروائیاں شروع نہیں ہوں گی۔

بین الاقوامی مذاکرات جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست بقیہ 59 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک نئے معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔

حماس کے ساتھ دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے 18 مارچ کو دوبارہ غزہ میں کارروائی شروع کی گئی تھی اور اس کے بعد سے کسی بھی اسرائیلی یرغمالی کو رہا نہیں کیا گیا۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ کا دائرہ بڑھانے کے لیے ریزرو فوجیوں کی طلبی کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جبکہ اس جنگ کی مخالفت میں اسرائیل کے اندر سے ہی کئی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک توسیعی جارحیت تھکے ہوئے ریزرو سپاہیوں پر مزید دباؤ ڈالے گی، جن میں سے کچھ جنگ ​​شروع ہونے کے بعد سے پانچ یا چھ بار طلب کیے جا چکے ہیں۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر کے بعد لاکھوں اسرائیلی ریزرو اہلکاروں نے وطن کی خدمت کے لیے اپنی خدمات فوری پیش کیں تاہم اب وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اہلکار اس کے مخالف ہیں اور رپورٹس کے مطابق ریزرو فورسز کی حاضری 50 سے 60 فیصد تک گر چکی ہے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی کارروائی میں توسیع یرغمالیوں کے خاندانوں کے ان خدشات کو بھی ہوا دے گی، جنھوں نے حکومت سے حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان لوگوں کو بچانے کا واحد راستہ ہے جو ابھی تک زندہ ہیں۔

جنگ بندی کے بارے میں خطوط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ڈینی یاتوم سمیت متعدد افراد وزیرِاعظم کے پرانے ناقدین میں سے ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ افراد بھی ہیں جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔

ڈینی یاتوم کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ نتن یاہو کو سب سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہے۔ اُن کی ترجیحات میں سب سے اوپر ان کے مفادات اور اپنی حکومت کو برقرار رکھنا ہے نہ کہ یرغمالیوں کی رہائی۔

Similar Posts