امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز وینزویلا کے جرائم پیشہ گینگ ”ٹرین ڈی اراگوا“ کے خلاف 1798 کے جنگی قانون ”ایلین انیمیز ایکٹ“ کا استعمال کرنے کی کوشش کی، جو آخری بار دوسری جنگ عظیم میں جاپانی شہریوں کے خلاف استعمال ہوا تھا، تاہم ایک وفاقی جج نے اس فیصلے کو روک دیا۔
ٹرمپ نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مبینہ طور پر گینگ کے ارکان کو ”دشمن غیر ملکی“ قرار دے کر ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، انسانی حقوق کے وکلاء نے عدالت سے رجوع کیا، جس کے بعد ایک وفاقی جج نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرے جب تک کہ وہ اس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ نہ لے لے۔
تاریخی قانون کا غیر معمولی استعمال
1798 کا ”ایلین انیمیز ایکٹ“ جنگی حالات میں صدر کو دشمن ملک کے شہریوں کو حراست میں لینے یا ملک بدر کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس قانون کو اب تک صرف تین بار استعمال کیا گیا ہے: 1812 کی جنگ، پہلی جنگ عظیم، اور دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942 سے 1946 کے درمیان، جب تقریباً 1 لاکھ 20 ہزار جاپانی اور جاپانی نژاد امریکی شہریوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
ٹرمپ، جو غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے وعدے کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، نے اس بار وینزویلا کے جرائم پیشہ گینگ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”ٹرین ڈی اراگوا“ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی حکومت سے جُڑی ہوئی ہے اور امریکہ میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔
”انتہائی قدم“
ٹرمپ نے کہا کہ یہ گینگ ”امریکہ کے خلاف غیر روایتی جنگ“ کر رہا ہے اور اس کے ارکان کو فوری گرفتار کرکے ملک بدر کیا جانا چاہیے۔ حکم نامے کے مطابق، اٹارنی جنرل پم بونڈی کو 60 دن دیے گئے ہیں تاکہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
اس فیصلے کے تحت 14 سال سے زائد عمر کے وہ تمام وینزویلی شہری، جو ”ٹرین ڈی اراگوا“ کے رکن ہیں اور امریکہ کے شہری یا مستقل قانونی رہائشی نہیں، فوری حراست اور ملک بدری کے مستحق ہوں گے۔
عدالت کا فیصلہ
امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) اور ”ڈیموکریسی فارورڈ“ نامی تنظیم نے واشنگٹن ڈی سی کی ضلعی عدالت میں درخواست دائر کی اور مؤقف اپنایا کہ 1798 کا قانون صرف جنگی حالات میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ امریکہ وینزویلا کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہے۔
وفاقی جج جیمز بوزبرگ نے ابھی تک اس معاملے پر حتمی فیصلہ نہیں دیا، لیکن ہفتے کے روز ایک عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کو 14 دن تک کسی بھی ملک بدری سے روک دیا۔ عدالت نے وائٹ ہاؤس کو ہدایت دی ہے کہ اگر وہ اس فیصلے کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو پیر تک درخواست دائر کریں، ورنہ اگلی سماعت 21 مارچ کو ہوگی۔
اے سی ایل یو کے نائب ڈائریکٹر لی گلرنٹ نے کہا، ’یہ ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی کا سب سے انتہا پسندانہ اقدام ہے۔‘ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ اس قانون کو غیر قانونی طور پر امن کے دور میں استعمال کر کے امیگریشن قوانین کو نظرانداز کرنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا، ’فی الحال جو فوری صورت حال سامنے آئی ہے، اس کے پیش نظر عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک عبوری حکم جاری کر کے موجودہ صورتحال کو برقرار رکھا جائے جب تک کہ اس پر تفصیلی سماعت نہ ہو۔‘
یہ مقدمہ ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف دائر کیے گئے کئی قانونی چیلنجز میں سے ایک ہے، جو ان کے سخت امیگریشن اقدامات کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔