بنگلہ دیش میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کو حکومتی تحویل میں لینے کی تیاری

0 minutes, 0 seconds Read

بنگلہ دیش میں حکومت نے ایک نیا صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت بنگلہ دیش کا مرکزی بینک اور حکومت کسی بھی شیڈولڈ بینک، بشمول اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں، کو عارضی طور پر اپنے کنٹرول میں لے سکتی ہے۔ ’’بینک ریزولوشن آرڈیننس 2025‘‘ جمعہ 9 مئی کو جاری کیا گیا، جو 17 اپریل کو ایڈوائزر کونسل سے منظوری کے بعد نافذ ہوا۔

سرسٹھ (67) صفحات پر مشتمل اس آرڈیننس کے مطابق، اگر کسی بینک کا فائدہ اٹھانے والا مالک (Beneficial Owner) بینک کے اثاثے یا فنڈز کو خود یا دوسروں کے فائدے کے لیے ناجائز طریقے سے استعمال کرتا ہے تو بنگلہ دیش بینک اس کے خلاف ریزولوشن (یعنی سخت کارروائی) کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس کے تحت، بینک کے حصص، اثاثے اور ذمہ داریاں کسی تیسرے فریق کو منتقل کی جا سکتی ہیں، اور بنگلہ دیش بینک کسی کمزور بینک میں عارضی ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کر سکتا ہے۔

آرڈیننس میں یہ بھی درج ہے کہ اگر کسی بینک کے دیوالیہ ہونے یا قریب المرگ ہونے کی صورتحال سامنے آئے، یا بینک ڈپازٹرز کا پیسہ ادا کرنے سے قاصر ہو، تو بنگلہ دیش بینک اس بینک کے مکمل اختیارات سنبھال سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ ڈویژن بھی قائم کیا جائے گا۔

ایک نئی اصطلاح ”بریج بینک“ بھی آرڈیننس کا حصہ ہے، جو ایک عبوری بینک ہوگا تاکہ کمزور یا ناکام بینک کی سرگرمیاں عارضی طور پر جاری رہیں۔ بعد ازاں اس بریج بینک کو بھی کسی تیسرے فریق کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، بنگلہ دیش بینک کسی بھی بینک کی تمام کاروباری سرگرمیاں معطل یا بند کرنے کا اختیار بھی رکھے گا۔

آرڈیننس کے تحت ”بینک سیکٹر کرائسز مینجمنٹ کونسل“ بھی قائم کی جائے گی، جس میں سات ارکان شامل ہوں گے، جن میں گورنر، فنانس سیکریٹری، بی ایس ای سی چیئرمین، اور دیگر اعلیٰ عہدیداران شامل ہوں گے۔ یہ کونسل ہر تین ماہ بعد اجلاس کرے گی اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرے گی۔

اگر کسی بینک کا لائسنس منسوخ ہوتا ہے تو بنگلہ دیش بینک عدالت میں اس کی تحلیل (liquidation) کے لیے درخواست دے گا، اور عدالت بینک کے اثاثے ختم کرنے کے لیے ایک لِکوڈیٹر مقرر کرے گی۔ لائسنس واپس لینے کے بعد سات دن کے اندر ڈپازٹس اور واجبات ادا کرنا لازمی ہوگا۔

آرڈیننس کے مطابق اگر کسی فرد کی غفلت، فیصلے یا عمل کی وجہ سے بینک کو نقصان پہنچے تو وہ شخصی طور پر ذمہ دار ہوگا۔ قواعد کی خلاف ورزی پر 50 لاکھ ٹکہ جرمانہ اور ہر روز کی تاخیر پر مزید 5 ہزار ٹکہ جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

بینک مالکان کی تنظیم ’’بنگلہ دیش ایسوسی ایشن آف بینکس‘‘ کے چیئرمین عبدالحئی سرکار نے کہا ہے کہ وہ اس آرڈیننس کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد اپنا ردعمل دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام نجی بینکوں کو ایک جیسا سمجھنا درست نہیں، اور سب سے پہلا قدم عوام، صارفین اور شیئر ہولڈرز کا اعتماد بحال کرنا ہونا چاہیے۔

Similar Posts