ترک عسکریت پسند تنظیم ’پی کے کے‘ نے 40 سالہ مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان کر دیا

0 minutes, 0 seconds Read

کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نے ترک ریاست کے خلاف چار دہائیوں سے جاری خونی مسلح جدوجہد کو ختم کرنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ خبر ”پی کے کے“ سے قریبی تعلق رکھنے والی خبر رساں ایجنسی ”فرات“ نے پیر کے روز دی ہے۔

فرات نیوز ایجنسی کے مطابق، ”پی کے کے“ کی شمالی عراق میں منعقدہ 12ویں کانگریس میں اس فیصلے کا اعلان کیا گیا جہاں تنظیم کا مرکزی ڈھانچہ قائم ہے۔ کانگریس کے اختتامی اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پی کے کے کی تنظیمی ساخت تحلیل کر دی جائے گی اور مسلح جدوجہد کو ختم کر دیا جائے گا۔‘

پی کے کے کا یہ فیصلہ نیٹو کے رکن ملک ترکی کے سیاسی و معاشی استحکام میں بہتری لا سکتا ہے اور ہمسایہ ممالک عراق و شام میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو بھی فروغ دے سکتا ہے، جہاں کرد فورسز امریکی حمایت یافتہ ہیں۔

بھارتی فوجی افسران نے ڈھکے چھپے الفاظ میں رافیل کی تباہی کا اعتراف کرلیا

پی کے کے نے 1984 میں ترک ریاست کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، معیشت پر بھاری بوجھ پڑا ہے اور سماجی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکی، امریکہ اور یورپی یونین پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

تنظیم کا یہ فیصلہ اس کے قید رہنما عبداللہ اوجالان کی جانب سے فروری میں کی گئی اپیل کے جواب میں کیا گیا ہے۔ اوجالان 1999 سے استنبول کے جنوب میں واقع ایک جزیرے پر قید ہیں۔ پیر کے روز پی کے کے نے کہا کہ وہ اس عمل کی نگرانی خود کریں گے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انقرہ ان کے کردار کو تسلیم کرے گا یا نہیں۔

وزیراعظم کا ترک عسکریت پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کی تحلیل کا خیرمقدم

یہ بھی واضح نہیں ہو سکا کہ ”پی کے کے“ کے غیر مسلح ہونے اور تنظیمی تحلیل کا عمل عملاً کیسے انجام پائے گا۔ مزید یہ بھی معلوم نہیں کہ شام میں موجود کرد وائی پی جی ملیشیا پر اس فیصلے کا کوئی اثر ہو گا یا نہیں، جسے ترکی ”پی کے کے“ کی شاخ قرار دیتا ہے، جبکہ وائی پی جی نے پہلے ہی کہا تھا کہ اوجالان کی اپیل ان پر لاگو نہیں ہوتی۔

”پی کے کے“ کے بیان میں کہا گیا، ’پی کے کے نے اپنے تاریخی مشن کو مکمل کر لیا ہے۔ ہماری جدوجہد نے ہمارے لوگوں کی نفی اور ان کے خاتمے کی پالیسی کو توڑا ہے اور کرد مسئلے کو جمہوری سیاست کے ذریعے حل کرنے کے مرحلے تک پہنچا دیا ہے۔‘

یوکرینی صدر نے پیوٹن کو آمنے سامنے امن مذاکرات کیلئے چیلنج کر دیا

ترکی کے صدر طیب اردوان کے لیے یہ فیصلہ جنوب مشرقی ترکی، جو کرد اکثریتی علاقہ ہے، میں ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے کا موقع بن سکتا ہے، جہاں مسلح جدوجہد نے دہائیوں سے معیشت کو متاثر کیا ہے۔

ترکی کی پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت، pro-Kurdish DEM پارٹی کے نائب رہنما طیب تیمل نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف کرد عوام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے اہم ہے۔ ان کے مطابق: ’یہ ترک ریاست کی سرکاری سوچ میں بھی بڑی تبدیلی کا تقاضا کرے گا۔‘

Similar Posts