کراچی کے رہائشی نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور بہیمانہ قتل کیس اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، پولیس نے ملزم ارمغان اور شیراز کے خلاف کیس کا عبوری چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں جمع کروادیا۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں جمع کرائے گئے چالان مین پولیس کا کہنا ہے کہ کیس میں 2 ملزمان ارمغان اور شیراز گرفتار ہیں، ملزم شیراز کا بیان بھی عبوری چالان میں شامل کیا گیا ہے، ملزم شیراز نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا، شیزاز نے اپنے بیان میں کہاکہ 4 فروری کو ارمغان نے کال کرکے گھر بلایا، 10 بجے ارمغان کے گھر پہنچا تو وہاں انجیلا نامی لڑکی زخمی حالت میں تھی، 6 فروری کو نو بجے مصطفی عامر ارمغان کے گھر آیا۔
چالان میں کہا گیا کہ ارمغان نے مصطفی عامر کو گالم گلوچ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا، ارمغان نے مصطفی عامر کو ہاتھ باندھ کر اسی کی گاڑی میں ڈالا، ارمغان نے گاڑی خود ڈرائیو کرکے حب بلوچستان تک لے گئے، 3 گھنٹے ڈرائیو کرکے روڈ سے کچے میں گاڑی اتاری، ارمغان نے گاڑی پر پیٹرول چھڑکا اور آگ لگا دی، واپسی پر دیڑھ گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد ہوٹل پہنچے، صبح پتہ چلا کہ گاڑی نہیں آئے گی، سوزوکی والے کو 2 ہزار روپے دے کر کراچی واپس پہنچے۔
عبوری چالان میں مزید کہا گیا کہ نادرن بائی پاس ہمدرد موڑ کے رینجرز کی چوکی پر لگے سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی فوٹیج ریکارڈ ہوئی، ملزم ارمغان اور شیراز نے جائے وقوعہ کی نشاندہی بھی کروائی، ملزم نے جس ہوٹل پر ناشتہ کیا اس کے ویٹر کا بیان بھی لیا گیا، مقتول کی لاش سے حاصل ڈی این اے کو میچ کرکے مقتول کی شناخت کی گئی۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس: تحقیقات مکمل، ارمغان اور شیراز کے خلاف عبوری چالان واپس کردیا گیا
چالان میں کہا گیا کہ ملزم کے ذاتی استعمال کے لیپ ٹاپ کو فرانسک کے لئے بھیجا ہے، ملزم کی نشاندہی پر زیر استعمال موبائل فون بھی برآمد کیا ہے، ملزم شیراز اور ارمغان نے ایس ایس پی کے روبرو اعتراف جرم کی ویڈیو ریکارڈ کروائی، ارمغان کے ہاتھوں زخمی ہونے والی لڑکی زوما عرف انجیلا کا بیان ریکارڈ کیا گیا، ملزم ارمغان کے دو ملازمین کے زیر دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروائے۔
پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں مزید کہا گیا کہ ملزم سے برآمد اسلحے کی تحقیقات سی ٹی ڈی کررہی ہے، ملزم ارمغان نے مصطفی عامر کو تشدد کرکے زخمی کرنے اور گاڑی میں آگ لگا کر قتل کرنے کا اعتراف کیا، ملزم نے حب سے واپسی پر آلہ ضرب، مقتول کے خون آلود کپڑے اور موبائل فون پھینک دیے تھے، ملزم کی نشاندہی پر آلہ ضرب برآمد کیا گیا۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس؛ ملزم ارمغان کے خلاف سائبر کرائم سرکل میں مقدمہ درج
چالان میں یہ بھی کہا گیا کہ پولیس سے مقابلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی گئی، مصطفی عامر نے ارمغان کے گھر جانے سے پہلے دوست کو اطلاع کی تھی، امریکا میں مقیم اس دوست کا بھی بیان ریکارڈ کیا گیا ہے، ملزمان کی سوزوکی میں واپسی کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی گئی ہے، ملزم ارمغان کی ٹریول ہسٹری بھی حاصل کی گئی ہے، لیپ ٹاپ اور موبائل فون کی فرانسک رپورٹ تاحال پنجاب فرانسک لیب سے حاصل نہیں ہوسکی ہے، رپورٹ موصول ہونے کے بعد حتمی چالان پیش کیا جائے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
منشیات کے گندے دھندے کے بڑے کردار بے نقاب، منشیات کیس کے ملزم ساحر حسین نے اسپیشلائزڈ یونٹ کو سب بتا دیا
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔