وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی معاف کرنے اور مذاکرات کے لیے تیار ہیں، موجودہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مکمل رہائی کے لیے بھی درخواست زیر سماعت ہے، اور تمام آئینی راستے اپنائے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ ہونے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ہفتے ملاقات کا عدالتی حکم موجود ہے، لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ قریب ہے، سیکیورٹی اور دیگر اہم معاملات پر بانی پی ٹی آئی سے مشاورت ضروری ہے، ملاقات سے روکنا بہت بڑی زیادتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت، پیرول پر رہائی کی درخواست پر رجسٹرار کے اعتراضات برقرار
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی کی پیرول پر رہائی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت ہوئی۔ قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے سماعت کے دوران کہا کہ پیرول کی درخواست سزا معطلی کیس سے مختلف ہے اسے الگ طور پر دیکھا جائے گا۔
عمران خان کی پیرول پر رہائی کی درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر
بانی پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی کہ پیرول پر رہائی کی درخواست کو سزا معطلی کیس کے ساتھ فکس کیا جائے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست کی قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے، اسسٹنٹ رجسٹرار کا یہ دائرہ اختیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ ایک شخص کو انصاف نہیں مل رہا، جو کہ خطرناک رجحان ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو چکی ہے اور وہ سزا یافتہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو اعتراضات لگائے گئے ہیں ان پر عدالتی حکم جاری کیا جائے گا۔
بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوششیں، جنید اکبر پارٹی رہنماؤں پر برس پڑے
سماعت کے دوران وکیل نیازاللہ نیازی نے بتایا کہ توہین عدالت کی سات درخواستیں بھی زیر التوا ہیں، جبکہ 190 ملین پاؤنڈ سزا معطلی کی سماعت بھی تاحال مقرر نہیں ہوئی۔ لطیف کھوسہ نے عدالت سے زور دیا کہ پیرول کیس بھی انہی کے ساتھ فکس کیا جائے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے واضح کیا کہ پیرول پر رہائی ایک مختلف نوعیت کا معاملہ ہے اور اس پر الگ سے فیصلہ کیا جائے گا۔ عدالت نے اس موقع پر مشورہ دیا کہ حکومت کے زیر اختیار معاملے کو عدالت میں لانے کے بجائے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا۔
رقم (190 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔