مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: بینچ سے الگ ہوئے دو ججز کو واپسی لانے پر بحث

0 minutes, 0 seconds Read

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت آج بھی ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت بینچ سے الگ ہوئے دو ججز کو واپسی لانے پر بحث ہوئی۔

منگل کو سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چھ مئی کی عدالتی کارروائی کا حکمنامہ پڑھا جائے۔ جس کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ حکمنامے پر بینچ کے تمام تیرہ ججز کے دستخط موجود ہیں، تاہم اس حکمنامے میں دو ججز نے اختلاف کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں ججز نے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کیں، جس کے بعد بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے معاملہ ججز آئینی کمیٹی کو بھیجا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کمیٹی کو بھیجنے پر بھی اختلاف کرنے والے دونوں ججز نے دستخط کیے، اور اگر کوئی جج چلتے کیس میں بینچ سے الگ ہو تو معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بینچ کی دوبارہ تشکیل پر ان دو ججز نے اعتراض نہیں کیا کہ وہ متفق نہیں۔

جمشید دستی کے اثاثہ جات اور تعلیمی اسناد سے متعلق کیس، فیصلہ محفوظ

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل بھی بتایا تھا کہ ان دو ججز کی اپنی خواہش تھی کہ وہ بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز نے تو میرٹس پر بھی بات کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب الیکشن کیس میں چار ججز اور تین ججز والی بحث کافی چلی تھی، جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پنجاب الیکشن کیس کا آرڈر آف دی کورٹ آج تک نہیں آیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جوڈیشل ریکارڈ ابھی آپ کے سامنے نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کل پھر ججز کو شامل کریں وہ بھی فیصلہ کر دیں تو کیا ہوگا؟ ایسے تو ہر روز ججز فیصلہ کرتے جائیں اور نکلتے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آرڈر آف کورٹ میں ہمیشہ بینچ میں شامل تمام ججز کا فیصلہ دیکھا جاتا ہے۔

اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان دو ججز نے فیصلہ کیا ہی نہیں، اور تیرہ رکنی فیصلے پر گیارہ ججز نظرثانی نہیں سن سکتے۔ تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دونوں جج صاحبان نے پہلے دن ہی اپنے مائنڈ سے فیصلہ کر دیا، اور اس مقدمے میں جو کچھ ہوتا رہا سب کچھ گھڑی کے مخالف ہوا۔ جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے کہا کہ چلیں چھوڑیں، آپ کو اندرونی باتیں نہیں معلوم، آپ دلائل دیں۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ جب 3-4 کا مسئلہ تھا تب آپ کی رائے کیا تھی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں نیا بینچ بنایا گیا تھا کیونکہ بینچ چھوٹا تھا۔ وکیل نے کہا کہ بینچ بننے کے بعد جج خود کیس سننے سے معذرت نہ کرے تو اسے بینچ سے نہیں نکالا جا سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بینچ سے علیحدگی کا کیس ہی نہیں ہے، دو ججز نے درخواستیں خارج کی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پیرا 4 دیکھ لیں، اس میں یہی ہے کہ دونوں نے درخواستیں خارج کیں۔

فیصل صدیقی نے ایک بار پھر مؤقف دہرایا کہ دونوں ججز نے فیصلہ کیا ہی نہیں اور تیرہ رکنی فیصلے پر گیارہ ججز نظرثانی نہیں سن سکتے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا جج کھلی عدالت میں کیس سننے سے معذرت کر سکتا ہے یا چیمبر سے بھی ایسا کہا جا سکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس سننے والا جج کھلی عدالت میں آ کر ہی معذرت کرتا ہے۔ تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایسی مثالیں ہیں جہاں ججز نے چیمبرز میں بیٹھ کر بھی کیسز سننے سے معذرت کی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ تو اصرار کر رہے ہیں کہ ہم آپ کی دلیل سے متفق ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا ہم جوڈیشل آرڈر جاری کریں کہ فلاں جج کو بینچ میں لایا جائے؟ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ چھ مئی کے حکمنامے کے خلاف کسی نے نظرثانی بھی دائر نہیں کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا دو ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں؟ انہوں نے کہا کہ ان دو ججوں میں سے ایک جج ملک میں نہیں ہے۔

جسٹس امین الدین خان کا سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ ہوا، جس میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں آپ ہی ان دو ججوں کو دعوت نامہ بھجوا دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ آپ مجھے امریکہ کا ٹکٹ لے کر دیں، میں اس جج کو امریکہ سے جا کر لے آتی ہوں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ ویسے بھی دس دس سال سے سزائے موت کی اپیلیں زیر التوا ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں بھی زیر التوا کر دیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ فوجداری کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی کہ فوجداری کیسز پر سماعت کی جائے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بہت ساری باتوں کا آپ کو علم نہیں ہے۔

نور مقدم قتل کیس: لڑکے اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنا ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے، جسٹس ہاشم کاکڑ

اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے پنچ پر اعتراضات سے متعلق دلائل مکمل ہوگئے۔ جس کے بعد حامد خان نے 26ویں آئینی ترمیم کیس کے فیصلہ تک سماعت ملتوی کرنے اور مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کو براہ راست نشرکرنے کی استدعا کردی۔

عدالت نے کہا کہ حامد خان کی دونوں درخواستوں پر دلائل کل سنے جائیں گے۔ اس کے بعد کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

Similar Posts