الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے خلاف اثاثوں اور تعلیمی اسناد سے متعلق دائر درخواست کی سماعت مکمل ہوگئی، جس کے بعد تین رکنی کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
سماعت ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزار امیر اکبر کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جمشید دستی نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اثاثے چھپائے اور جھوٹی تعلیمی تفصیلات درج کیں۔ وکیل کے مطابق دستی نے کاغذاتِ نامزدگی میں ایف اے لکھا جبکہ وہ نہ میٹرک پاس ہیں اور نہ ایف اے۔
ممبر خیبر پختونخوا نے استفسار کیا کہ کیا جمشید دستی کی ایسی کوئی پراپرٹی ہے جو کاغذات میں ظاہر نہیں کی گئی؟ جس پر وکیل نے اثبات میں جواب دیا۔
دورانِ سماعت دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب کمیشن کے ممبر بلوچستان نے سوال کیا اگر کوئی شخص ان پڑھ ہو تو کیا ہوگا؟ اس پر ممبر خیبر پختونخوا نے استفسار کیا کہ کیا جمشید دستی نے جھوٹ بولا؟ جس پر وکیل نے کہا، جی ہاں، جمشید دستی نے جھوٹ بولا ہے۔
وکیل کے مطابق جمشید دستی نے 2017 میں بی اے کیا، جبکہ وہ ایف اے بعد میں یعنی 2020 میں کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، جو تسلسل کے لحاظ سے مشکوک ہے۔ وکیل نے بتایا کہ بہاولپور یونیورسٹی نے جمشید دستی کی بی اے اور ایف اے کی اسناد کو جعلی قرار دیا ہے، جبکہ میٹرک کی سند بھی ڈی جی خان بورڈ سے جعلی ثابت ہوئی ہے۔
جمشید دستی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے میٹرک اور ایف اے کراچی بورڈ سے کیا ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ان اسناد کی تصدیق کراچی بورڈ سے کروائی جائے گی۔
ممبر خیبر پختونخوا نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس جمشید دستی کو نااہل قرار دینے کے اختیارات موجود ہیں۔
الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔