اپنی حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے ہوئے چین نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی اور خلا کی تسخیر میں دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ چین نے نئی تاریخ رقم کرنے کے لئے خلا میں اے آئی سے لیس سُپر کمپیوٹر بنانا شروع کردیا۔
اس مقصد کے لیے چین نے حال ہی میں 12 جدید ترین مصنوعی ذہانت یا اے آئی سے لیس سیٹلائٹس خلا میں روانہ کیے ہیں، جو اس کے ’اسٹار کمپیوٹنگ پروگرام‘ کا حصہ ہیں۔ یہ سیٹلائٹس لانگ مارچ 2D راکٹ کے ذریعے کامیابی سے اپنی مقررہ مدار میں پہنچا دیے گئے۔
چین نے اپنا نیا اے آئی ماڈل میدان میں اُتار دیا، امریکا کا غلبہ خطرے میں پڑ گیا
ہر سیٹلائٹ 744 ٹریلین آپریشن فی سیکنڈ انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ ان کی ڈیٹا ٹرانسفر اسپیڈ 100 گیگابٹس فی سیکنڈ تک ہے۔ یہ سیٹلائٹس ایک 8 ارب پیرامیٹرز پر مشتمل اے آئی ماڈل سے لیس ہیں، جو خلا میں ہی ڈیٹا کی براہِ راست پروسیسنگ ممکن بناتے ہیں۔
اس خلائی کمپیوٹنگ نیٹ ورک کو ”تھری باڈی کمپیوٹنگ کونسٹیلیشن“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ زمین پر موجود ڈیٹا سینٹرز کی نسبت زیادہ طاقتور اور مؤثر ہو گا کیونکہ اسے کولنگ سسٹمز یا دیگر مہنگے انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہوگی۔
نہلے پر دہلا: چین نے مقناطیس سمیت ٹیکنالوجی کیلئے درکار کئی اہم دھاتوں کی برآمد روک دی
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق، زمین پر موجود ڈیٹا سینٹرز 2026 تک ایک ہزار ٹیرا واٹ گھنٹے سے زیادہ بجلی استعمال کریں گے، جو کہ جاپان کی مجموعی بجلی کھپت کے برابر ہے۔ چین کا یہ نیا نظام نہ صرف توانائی کی بچت کرے گا بلکہ ڈیٹا کی تیز تر اور مؤثر پروسیسنگ بھی ممکن بنائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت خلا سے حاصل ہونے والے 90 فیصد سے زائد ڈیٹا کو زمین پر لانے میں تاخیر یا رکاوٹ آتی ہے، لیکن چین کا یہ منصوبہ اس سست رفتاری کا انقلابی حل ہے۔
چین نے 6 جی ٹیکنالوجی میں تاریخ رقم کردی
چین پہلے بھی اپنے خلائی منصوبوں سے دنیا کو حیران کر چکا ہے، جن میں ”تھری گارجز ڈیم آف اسپیس“ بھی شامل ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جس کے تحت خلا میں ایک کلومیٹر چوڑی شمسی توانائی کی پینل تعینات کی جائے گی، جو دن رات بلا تعطل توانائی حاصل کر سکے گی۔