اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی کے زیر صدارت ہوا جس میں سوشل میڈیا پر جنگ کے دوران پاکستان مخالف پروپیگنڈے، ”ذہانت اے آئی“ کے دعوے، اور کرپٹو کونسل کے معاملات زیر بحث آئے۔
چیئرپرسن کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ جنگ کے دوران ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر جو منفی مہم چلائی گئی، اس پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کیا اقدامات کیے؟ کیا کسی یوٹیوب چینل کو بلاک کیا گیا؟
چیئرمین پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ ادارے کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں: یا تو مکمل چینل بلاک کرنا یا صرف مخصوص مواد کو۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے روزانہ کی بنیاد پر مواد بلاک کرنے کی 300 درخواستیں وصول کرتا ہے، اور گزشتہ پانچ ماہ میں 45 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں یوٹیوب سے متعلق 90 فیصد، ٹک ٹاک سے 76 فیصد اور فیس بک سے 72 فیصد شکایات شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی اے نے اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں سیاسی نوعیت کا مواد ہٹانے سے انکار کر دیتی ہیں اور انفرادی شکایات پر بھی صارف کو براہ راست جواب دیتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی اے نے سرکاری اداروں کے لیے ایک علیحدہ پورٹل بھی تیار کیا ہے۔
اس موقع پر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کہا جائے کہ وہ پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کریں کیونکہ اب وہ اسے ممکنہ مارکیٹ سمجھنے لگے ہیں۔
اجلاس میں وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی جانب سے ”ذہانت اے آئی“ کے دعوے پر بھی سخت سوالات کیے گئے۔ حکام نے وضاحت دی کہ یہ منصوبہ وزارت کا نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ کمپنی کا تھا، تاہم وفاقی وزیر نے اس کا دعویٰ سرکاری حیثیت سے کیا جس پر چیئرپرسن کمیٹی نے اعتراض کیا کہ بعد میں اس بیان کی کوئی سرکاری تردید نہیں آئی۔ کمیٹی نے ”ذہانت اے آئی“ سے متعلق ایجنڈا آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وفاقی وزیر خود کمیٹی میں آ کر وضاحت پیش کریں، بصورت دیگر وزیر اعظم کو خط لکھا جائے گا۔
کرپٹو کرنسی سے متعلق بحث میں سینیٹر افنان اللہ نے اعتراض کیا کہ کرپٹو کونسل وزارت خزانہ کے بجائے وزارت آئی ٹی کے پاس ہونی چاہیے تھی کیونکہ آئی ٹی اس کا اصل دائرہ اختیار ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا کہ اگر کرپٹو سے متعلق کوئی بڑا فراڈ ہو جائے تو ذمہ دار کون ہوگا؟
سیکریٹری آئی ٹی نے جواب دیا کہ وزارت صرف پالیسی سازی میں معاونت کرتی ہے، ریگولیشن کا کام ان کا دائرہ اختیار نہیں۔ اس پر کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ کرپٹو پر واضح قانون سازی کی جائے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے اجلاس کے اختتام پر بتایا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 نافذ ہوچکا ہے، جس میں اظہار رائے کی آزادی اور ریاست کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سینیٹر پلوشہ خان نے سوال کیا کہ اگر کسی کی عزت سوشل میڈیا پر اچھالی جائے تو اس کا کیا حل ہوگا؟ جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ انفرادی شکایات پر بھی 24 گھنٹوں کے اندر کارروائی کی جاتی ہے۔