مصطفیٰ قتل کیس: سپریم کورٹ رجسٹری میں ملزم کی عدم پیشی پر عدالت برہم

0 minutes, 0 seconds Read

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مصطفیٰ قتل کیس کے اہم مرحلے پر سابق منتظم جج انسداد دہشت گردی عدالت سید ذاکر حسین کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں مقتول مصطفیٰ عامر کی والدہ اور مقدمے کی مدعیہ کے وکیل بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران عدالت نے متعدد بار ملزم ارمغان کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم کہاں ہے اور کیا نوٹس کی تعمیل نہیں ہوئی؟ عدالتی عملے نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم کو نوٹس کی تعمیل سینٹرل جیل میں کرادی گئی تھی، لیکن پھر بھی وہ پیش نہیں ہوا۔

جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ آنے سے آپ لوگ کیوں گھبرا جاتے ہیں؟ نا ہی ہم کیس کے میرٹ پر بات کر رہے ہیں اور نا ہی کیس کو متاثر ہونے دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ صرف ایک دن کیس کی سماعت ہوئی اور دوسرے دن ہی فریقین کو سنے بغیر اے ٹی سی جج کے خلاف سخت ریمارکس جاری کردیے گئے۔ کسی کی عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران ہائیکورٹ کے اے ٹی سی جج سے متعلق ریمارکس پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وکیل چاہیں تو وہ ریمارکس حذف کر دیے جائیں۔ وکیل مدعیہ نے کہا کہ ’ہم ان ریمارکس سے متفق نہیں اور عدالت چاہے تو انہیں حذف کر دے۔

دوسری جانب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ کیس کی فائل ان کے پاس نہیں ہے اور تفتیشی افسر بھی پیش نہیں ہوا، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر چیز موجود ہے، پھر مہلت کس بات کی مانگ رہے ہیں؟

عدالت نے قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل منتظر مہدی کو ذاتی حیثیت میں 5 جون کو طلب کر لیا۔

یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 18 فروری کو پراسیکیوشن کی درخواستوں پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق منتظم جج کے اختیارات کسی اور عدالت کو منتقل کرنے کی سفارش کی تھی۔ درخواست گزار کے وکیل غلام شبیر شاہ نے مؤقف اختیار کیا کہ جج سے نا تو جواب طلب کیا گیا اور نا ہی موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا، جو آئین کے آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزار کے خلاف جاری کیے گئے سخت ریمارکس کو خارج کیا جائے تاکہ ان کے طویل عدالتی کیریئر پر لگے داغ مٹائے جا سکیں۔

عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے 5 جون کی تاریخ مقرر کر دی۔

Similar Posts