امریکا میں تارکین وطن کے خلاف کارروائیوں پر ہنگامے، ٹرمپ کا مزید شدت کا اعلان

0 minutes, 0 seconds Read

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن حکام کی جانب سے جاری چھاپوں کے بعد ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے پیشِ نظر ہفتے کے روز 2 ہزار نیشنل گارڈ کے اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ٹرمپ کے بارڈر امور کے مشیر ٹام ہومین نے فاکس نیوز پر کیا، جس کا مقصد وفاقی فورسز کی حمایت کرنا ہے جو مظاہرین سے نمٹنے میں پہلے ہی مصروف ہیں۔

یہ مظاہرے جمعہ کو امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کی جانب سے کی گئی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف شروع ہوئے تھے، جن میں درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد نے ہفتے کو بھی لاس اینجلس کی سڑکوں کا رُخ کیا، جہاں اُن کی جھڑپیں دوبارہ وفاقی ایجنٹس سے ہوئیں۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو ’جان بوجھ کر اشتعال انگیز قدم‘ قرار دیا۔ جواباً صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے لکھا، ’اگر کیلیفورنیا کے گورنر گیوین ’نیو سکم‘ اور لاس اینجلس کی میئر کیرن باس اپنا کام نہیں کر سکتے، جو سب جانتے ہیں کہ وہ نہیں کر سکتے، تو وفاقی حکومت مداخلت کرے گی اور ان فسادات و لوٹ مار کو اس طریقے سے روکے گی جس طرح اسے روکا جانا چاہیے!!!‘

پیراماؤنٹ میں تصادم، آنسو گیس اور فلیش بینگز کا استعمال

سب سے بڑی جھڑپ شہر پیراماؤنٹ میں ہوئی، جو لاس اینجلس کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہاں مظاہرین اور وفاقی اہلکار آمنے سامنے آ گئے۔ اہلکاروں نے سبز جنگی لباس اور گیس ماسک پہنے ہوئے تھے جبکہ مظاہرین ’ICE پیراماؤنٹ سے باہر جاؤ‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک مظاہرہ کرنے والے نے میکسیکن پرچم بلند کیا اور کئی افراد نے اپنے چہروں کو ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا۔

وفاقی اہلکاروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور فلیش بینگز کا استعمال کیا، جبکہ سڑک کا ایک بڑا حصہ بند کر دیا گیا۔ ایک لائیو ویڈیو میں دیکھا گیا کہ اہلکار فوجی طرز کی پوزیشن میں موجود تھے اور انہوں نے شاپنگ کارٹس سے عارضی دفاعی رکاوٹیں قائم کر رکھی تھیں۔

پچھلی کارروائیوں کا پس منظر

جمعے کے روزآئی سی ای کی جانب سے پورے لاس اینجلس میں ایک بڑے آپریشن کے دوران کم از کم 44 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق، اس کے بعد تقریباً 1,000 افراد نے ایک وفاقی مرکز کے باہر احتجاج کیا، جہاں مظاہرین نے مبینہ طور پر املاک کو نقصان پہنچایا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا، اور اہلکاروں پر حملے کیے۔

وفاقی حکومت کا ردِعمل: ’بغاوت‘ اور ’تشدد‘ کے الزامات

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’امریکی قوانین اور خودمختاری کے خلاف بغاوت‘ قرار دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ صدر ٹرمپ کی حکومت روزانہ کم از کم 3 ہزارغیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے کا ہدف رکھتی ہے۔

دوسری جانب، ڈی ایچ ایس کی اسسٹنٹ سیکرٹری ٹریشا میک لافلن نے ریاستی اور مقامی حکام پر ’وفاقی اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق، ’ان رہنماؤں کی جانب سے آئی سی ای کی نازی گسٹاپو سے تقابل اور بلوائیوں کی حمایت انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ تشدد بند ہونا چاہیے۔‘

لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے آئی سی ای کے چھاپوں اور نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے بیان دیا، ’یہ حربے ہماری برادریوں میں دہشت پھیلانے اور شہری سلامتی کو مجروح کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم اس ظلم کو برداشت نہیں کریں گے۔‘

ایف بی آئی نے تصدیق کی ہے کہ وہ ان مظاہروں سے متعلق شواہد کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ کسی ممکنہ فوجداری سرگرمی کی نشاندہی کی جا سکے۔ امریکی اٹارنی کا دفتر بھی اس تفتیش میں شامل ہے۔

Similar Posts