وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 17 ہزار 600 ارب روپے حجم کا ٹیکسوں سے بھرا بجٹ 26-2025 پیش کردیا، تنخواہوں میں 10فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کردیا گیا، انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز دی گئی، پراپرٹی پر ریلیف دیا گیا اور سولر پینل پر ٹیکس عائد کردیا گیا، دفاعی بجٹ کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے ہے۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 5 بجے طلب کیا گیا تھا تاہم اجلاس تقریباً آدھے گھنٹے تاخیر سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور پھر معمول کے مطابق نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی۔
وزیراعظم شہبازشریف بجٹ اجلاس میں پہنچے، اس موقع پر قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا، اجلاس کے دوران اپوزیشن کی طرف سے شور شرابہ اور بجٹ دستاویزات کی کاپیاں پھاڑیں۔
”بجٹ کے اہم نکات“
اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان
افراط زر کی شرح 7.5 فیصد متوقع
بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد، پرائمری سرپلس 2.4 فیصد
ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14 ہزار 131 ارب، صوبوں کا حصہ 8206 ارب
وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب روپے اور خالص آمدنی 11072 ارب روپے
وفاقی حکومت کے کُل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب، سود کی مد میں 8207 ارب روپے کی ادائیگی
دفاع کے لیے 2250 ارب روپے مختص
بجلی اور دیگر شعبوں کی سبسڈی کے لیے 1186 ارب روپے مختص
گرانٹس کے لیے 1928 ارب روپے مختص
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلیے 716 ارب روپے مختص
ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر کے لیے 1 ہزار ارب مختص
کراچی سے چمن کی شاہراہ این 25 کے لیے 100 ارب روپے مختص
زراعت کے لیے 4 ارب روپے سے زائد مختص
ہائیر ایجوکیشن کے لیے 38.5 ارب روپے
سائنس ٹیکنالوجی کے 31 جاری منصوبوں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص
تعلیم کے لیے 18.5 ارب روپے مختص
دانش اسکولوں کے قیام کے لیے 9.8 ارب روپے مختص
صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص
گورننس کے لیے 11 ارب روپے مختص
”وزیر خزانہ کی بجٹ تقرر“ٗ
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اسپیکر کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد اپنی بجٹ تقریر کے آغاز پر کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ وزیراعظم سمیت دیگر سیاسی قائدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ بجٹ غیر معمولی حالات میں پیش کیا جارہا ہے جب قوم نے زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا، بھارت کے خلاف قوم کے اتحاد کو تاریخ کے سنہری باب میں یاد رکھا جائے گا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب ہماری توجہ معاشی استحکام ، ترقی کی جانب مرکوز ہے، ہم اسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنائیں گے، گزشتہ ڈیڑھ سال میں ترقی کا سفر اور معاشی اصلاحایات کا سفر کامیابی سے کیا اور معیشت کو استحکام بخشتے ہوئے مستقبل کو مضبوط بنایا، ایسی معیشت کی تشکیل چاہتے ہیں جس کا فائدہ براہ راست ہر طبقے کو ہو اور ہر شخص کی دہلیز تک ترقی پہنچے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس دورانیے میں ہر شعبے میں ترقی کی اور پُرامید ہیں کہ ترسیلات زر کا حجم رواں مالی سال کے اختتام تک 37 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گا، ملک دیرپا ترقی کی جانب گامزن ہے۔
وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ ایف بی آر کے محصولات کے حوالے سے گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہم نے اس شعبے میں بہت ترقی کی، ہم آدھے سے زیادہ ٹیکس سے محروم تھے اور اس خلا کو پُر کرنا ضروری تھا، ایف بی آر کو ٹرانسفارم کیے بغیر معیشت کو بہتر کرنا ناممکن تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی نگرانی میں ایک منصوبے کی بنیاد کی منظوری دی گئی۔ جس کے بعد محاصل میں اضافہ ہوا۔ ہم نے 78.4 ارب کے وہ محاصل وصول کیے جو مشکل تھے جبکہ عدالتوں میں اے ڈی آر کے ذریعے مسئلہ حل کیا، جس سے قومی خزانے کو 77 ارب وصول ہوئے۔
پاور سیکٹر میں گہری اور بنیادی اصلاحات لانا ضروری ہیں، وزیرخزانہ
وزیرخزانہ نے کہا کہ پاور سیکٹر میں بڑی اصلاحات لانا ضروری ہیں جس کے تحت اربوں کے نقصانات کو کم کیا گیا ہے جبکہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی بجلی کی کمپنیوں کی نجکاری کا کام مکمل کرلیا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنی این ٹی ڈی سی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ان اداروں میں عالمی معیار کے افراد تعینات کیے جائیں گے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بورڈز تشکیل دیے جو غیر سیاسی ہیں جن کے اخراجات اور نقصانات میں 140 ارب روپے کی کمی ہوئی، آزاد مارکیٹ کے قیام کے لیے اگلے 3 ماہ میں عمل شروع ہوجائے گا۔
بجٹ 2025-2026
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال2025-26 کیلئے مجموعی طور پر 17 ہزار 573 ارب روپے مالیت کے حجم پر مشتمل چھ ہزارپانچ سو ایک ارب روپے خسارے کا وفاقی بجٹ منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کردیا۔
بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اور پنشن میں7 فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی ہے، تنخواہ دار طبقے کیلئے آمدنی کی تمام سلیب میں انکم ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی تجویز دی گئی ہے ۔
گریڈ ایک تا سولہ کے ملازمین کو تیس فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کی تجویز ہے جبکہ چھ لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے سالانہ آمدنی رکھنے والے تنخواہ دار ملازمین پر انکم ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بارہ لاکھ روپے تنخواہ لینے والے ملازمین پر ٹیکس کی رقم 30 ہزار روپے سے کم کرکے چھ ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بائیس لاکھ روپے تک آمدنی رکھنے والے ملازمین پر انکم ٹیکس کی شرح پندرہ فیصد سے کم کرکے گیارہ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے بتیس لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کیلئے انکم ٹیکس کی شرح پچیس فیصد سے کم کرکے23 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئندہ مالی سال مجموعی اخراجات 17 ہزار 573 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے، مجموعی خام ریونیو کا ہدف 19298 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے اور خالص ریونیو کا ہدف 11072 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ ایف بی آر ٹیکس وصولی کا ہدف 14131 ارب رکھنے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے اور اگلے مالی سال میں اداروں کی نجکاری سے87 ارب حاصل کرنے کا ہدف تجویز کیا گیا ہے۔
”2550 ارب دفاع کے لیے مختص کیے گئے ہیں، وزیر خزانہ“
آئندہ مالی سال کے لیے تجویز کردہ چھ ہزارپانچ سو ایک ارب روپے کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ دفاع کے لیے 2550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
اخراجات جاریہ کے لیے 16286 ارب روپے، قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لیے 8207 ارب روپے، پنشن کی ادائیگیوں کیلئے 1055 ارب روپے، گرانٹس اور صووبوں کو منتقلیوں کیلئے1928 ارب روپے، سبسڈیز کیلئے1186 ارب روپے ایمرجنسی و کسفی بھی قدرتی و ناگہانی آفت کی صورت میں اخراجات کیلئے289 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مجموعی ترقیاتی اور نیٹ لینڈنگ کے لیے 1287 ارب روپے اس میں سے وفاقی پی ایس ڈی پی کیلئے ایک ہزار ارب روپے اور نیٹ لینڈنگ کے لیے 287 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے معاشی شرح نمو(جی ڈی پی) کا ہدف 4.2 فیصد جبکہ مہنگائی کا ہدف ساڑھے 7 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر، ترسیلات زر کا ہدف 39 اعشاریہ 4 ارب ڈالرمقرر کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ 2 اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال کے لیے برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف چودہ ہزار131 ارب روپے سے زائد، اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے جبکہ بجٹ میں وفاقی ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی) کا حجم ایک ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال 26-2025 کے سالانہ ترقیاتی پلان کے تحت طے کردہ اہدات کے مطابق مالی سال 26-2025 کا کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 0.5 فیصد رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، آئندہ مالی سال کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ 2 اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال میں خدمات کے شعبہ میں برآمدات کا ہدف 9 ارب 60 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ خدمات کے شعبہ کی درآمدات کا ہدف 14 ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آئندہ مالی سال کے لیے ترسیلات زر کا ہدف 39 اعشاریہ 4 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال کیلئے اشیاء اور خدمات کی برامدات کا ہدف 44 اعشاریہ 9 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ اشیاء اور خدمات کی درآمدات کا ہدف 79 اعشاریہ 2 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا سالانہ اوسط ہدف ساڑھے 7 فیصد اور معاشی شرح نمو کا ہدف 4 اعشاریہ 2 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کرنے، مہنگائی کا سالانہ اوسط ہدف 7.5 فیصد اور زرعی شعبے کا ہدف 4.5 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں ۔
اسی طرح نئے مالی سال کے لیے صنعتی شعبے کے لیے 4.3 فیصد، خدمات کے شعبے کا ہدف 4 فیصد، مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.7 فیصد، فکسڈ انویسٹمنٹ کے لیے 13 فیصد، پبلک بشمول جنرل گورنمنٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 3.2 فیصد اور پرائیویٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 9.8 فیصد کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔
آئندہ مالی سال نیشنل سیونگز کا ہدف 14.3 فیصد مقرر کرنے، اہم فصلوں کا ہدف 6.7 اور دیگر فصلوں کا ہدف 3.5 فیصد، کاٹن جننگ 7 فیصد، لائیو اسٹاک 4.2 فیصد، جنگلات کا ہدف 3.5 فیصد اور فشنگ کا ہدف 3 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
اسی طرح نئے مالی سال کے لیے مینوفیکچرنگ کا ہدف 4.7 فیصد رکھنے، لارج اسکیل 3.5، اسمال اسکیل 8.9 اور سلاٹرنگ کا ہدف 4.3 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
بجلی، گیس اور واٹر سپلائی کے لیے 3.5 فیصد کا ہدف مقررکرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جبکہ تعمیراتی شعبے کا ہدف 3.8 فیصد رکھنے، ہول سیل اینڈ ریٹیل ٹریڈ کا ہدف 3.9 فیصد، ٹرانسپورٹ، اسٹورریج اینڈ کمیونیکیشنز کا ہدف 3.4 فیصد رکھنے، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کا ہدف 5 فیصد مقرر کرنے اور فنانشل اینڈ انشورنس سرگرمیوں کا ہدف 5 فیصد رکھنے کی تجاویز ہیں۔
”سولر کی امپورٹ پر ٹیکس عائد“
بجٹ میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد ٹیکس عائد کردیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولر پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری یقینی بنانے کے لیے تجویز ہے کہ سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی صنعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
”پراپرٹی ٹیکس میں کمی“
وفاقی حکومت نے کمرشل جائیدادوں، پلاٹوں اور گھروں کی ٹرانسفر پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی ہے اور ٹیکس کریڈٹ کا اعلان کیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے، ودہولڈنگ ٹیکس 4 فیصد سے کم کرکے اڑھائی فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
اسی طرح دوسری سلیب میں 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد، تیسرے سلیب میں 3 فیصد سے کم کر کے ودہولڈنگ ٹیکس 1.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نئے بجٹ میں کمرشل جائیدادوں، پلاٹوں اور گھروں کی ٹرانسفر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے، گزشتہ بجٹ میں 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی تھی۔
حکومت نے بجٹ میں 10 مرلہ تک کے گھروں اور دو ہزار مربع فٹ کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ کا اعلان کیا ہے، مورگیج فنانسنگ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نئے بجٹ میں اسلام آباد میں جائیداد کی خریداری پر اسٹاپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی گئی ہے۔
”آبی وسائل کے لیے 133 ارب روپے مختص“
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بھارتی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے پیش نظر پاکستان نے پانی کو اسٹور کرنے اور ضیاع کو روکنے کے لیے وزارت آبی وسائل کے لیے آئندہ مالی میں 133 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
”کراچی کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے مختص“
حکومت نے مالی سال 2025-2026 میں کراچی میں پانی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
”ڈیموں کے لیے رقم مختص“
دیا مر اور بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب روپے، مہمند کے لیے 35.7 ارب، آوران پنجگور سمیت بلوچستان کے دیگر 3 ڈیمز کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
”تمام گاڑیوں کے سیلز ٹیکس کو یکساں کیا جارہا ہے، وزیر خزانہ“
وزیرخزانہ نے بتایا کہ پٹرول،ڈیزل استعمال کرنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لائی جا رہی ہے، اٹھارہ فیصد سے کم سیلز ٹیکس والی تمام گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ای کامرس پلیٹ فارمزترسیل کرنے والے کوریئر اور لاجسٹک خدمات فراہم کرنے والوں سے 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے۔
”وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147ارب روپے ہوگا ،وزیر خزانہ“
بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11072ارب روپے ہوگی جبکہ ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب رپے ہوگا۔
وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17573ارب روپے ہے، جس میں سے 8207 ارب روپے سود ادائیگی کیلیے مختص ہوں گے، وفاقی حکومت کا جاریہ اخراجات کا تخمینہ16286ارب روپے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وفاق کے پبلک سیکٹر پروگرام کیلئے ایک ہزار ارب روپے کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز ملکی دفاع کیلئے 2550ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
”تعلیم کے لیے 18.5 ارب مختص“
وزیرخزانہ نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کی تعمیر کے لیے 3 ارب مختص کیے گئے ہیں، جبکہ وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 4.3 ارب مختص، 1 لاکھ 61 ہزار 500 نوجوانوں کو تعلیم دی جائے گی۔
”سپر ٹیکس میں کمی کا فیصلہ“
حکومت نے نئے بجٹ میں سالانہ 20کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
”الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح“
وزیر خزانہ کے مطابق نئی انرجی وہیکل پالیسی منظور کی گئی ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کیلئے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ لیوی معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اوردرآمد پرانجن کی طاقت کے مطابق عائد ہوگی۔
”کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا“
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا مگر کوئی منی بجٹ نہیں آیا نا کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا۔
”خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ضم اضلاع کی ٹیکس چھوٹ ختم“
آئندہ بجٹ میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع کو حاصل شدہ ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ ضم شدہ اضلاع میں کاروبار پر آئندہ پانچ سال میں مرحلہ وار سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، ضم شدہ اضلاع میں کاروبار پر آئندہ مالی سال میں دس فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
”شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن 10 سال تک محدود“
وزیر خزانہ نے بتایا کہ پنشن اسکیم میں بھی اصلاحات کر دی گئی ہیں، قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، پنشن اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے منسلک کردیا گیا ہے، شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت دس سال تک محدود ہوگی، ایک سے زائد پنشن کا خاتمہ ہوگا، ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
”10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ“
وزیر خزانہ نے بتایا کہ دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی منظوری دے دی گئی، 6 ڈویژنز کو ضم کر کے 3 ڈویژن بنادیے گئے ہیں۔ 45 کمپنیوں اور اداروں کو پرائیوٹائز، ضم یا ختم کیا جارہا ہے، 40 ہزار پوسٹیں ختم کر دی گئی ہیں، اگلی دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی سفارشات حتمی شکل دے دی۔
”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“
وزیر خزانہ کے مطابق حکومت کمزور ترین طبقے کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 592 ارب مختص کیے گئے ہیں، 99 لاکھ خاندانوں کی کفالت کی گئی، ایک کروڑ 16 لاکھ بچوں کو تعلیمی وظائف دیے گئے، پندرہ لاکھ حاملہ خواتین اور 16 لاکھ بچوں کو خصوصی امداد کی مدد کی گئی۔
”تجارتی جائیدادوں سے کرایہ کی آمدنی مارکیٹ ویلیو کا 4 فیصد ہوگی“
وزیر خزانہ نے بتایا کہ تجارتی جائیدادوں سے کرایہ کی آمدنی فیئر مارکیٹ ویلیو کے چار فیصد کی شرح سے تسلیم کی جائے گی، ٹیکس دہندگان کا ڈیٹا تعلیمی اداروں اور ڈونر ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
”برین ڈرین کے لیے پالیسی“
برین ڈرین کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے ایک کروڑ آمدنی والوں پر عائد سرچارج میں ایک فیصد کمی کی تجویز ہے۔
”ٹیکس ریلیف کہاں کہاں ملا؟“
مالی سال 2025/26 کے وفاقی بجت میں ٹیکس ریلیف کہاں کہاں دیا گیا؟
تنخواہ دار طبقے کیلیے ٹیکس کی شرح میں کمی
برین ڈرین کو بیرون ملک جانے سے روکنے کیلیے ایک کروڑ آمدنی والوں پر عائد سرچارج میں ایک فیصد کمی کی تجویز
کارپوریٹ سیکٹر : 20 سے 50 کروڑ آمدنی والی کارپوریشنز کے لیے ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کمی
جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد
فائلر کے لیے 1.5 فیصد ود ہولڈنگ
گھروں اور پلاٹس کی منتقلی پر عائد 7 فیصد ایف ای ڈی ختم
”ٹیکس سختیاں کہاں کہاں ہوئیں؟“
70 سال سے کم عمر سالانہ ایک کروڑ پنشن لینے والوں پر 5 فیصد ٹیکس عائد
آن لائن خریداری پر 18 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز
شرح سود پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد
میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس کی تجویز
نان فائلرز کے لیے بینک سے رقم نکلوانے پر 1 فیصد کرنے کی تجویز
نان فائلر کی دو لاکھ سے زائد کی فروخت انوائس پر پچاس فیصد عائد کرنے کی تجویزکرایہ آمدنی، مارکیٹ کے حساب سے چار فیصد مقرر
انکم ٹیکس کے شیڈول کو بہتر بنانے کی تجویز
آن لائن ٹرانزیکشن پر بھی ٹیکس عائد
سولر پینل پر 18 فیصد ٹیکس عائد
پیٹرول، ڈیزل اور ہائبرڈ گاڑیوں پر 18 فیصد ٹیکس عائد
بعدازاں قومی اسمبلی کا آج ہونے والا بجٹ اجلاس جمعے کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
قبل ازیں، وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی تھی جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی بجٹ میں نان فائلرز کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی کیش خریداری کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں جبکہ ہر قسم کی کیش خریداری پر بھی اضافی ٹیکس کی تجویز ہے۔