ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے کہا ہے کہ انھیں امریکی صدر پر کی جانی والی حالیہ تنقید میں سے کچھ پر افسوس ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق دنیا کے معروف ارب پتی اور ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’مجھے صدر ٹرمپ کے حوالے سے گزشتہ ہفتے کی جانے والی کچھ پوسٹس پر افسوس ہے، وہ حد سے زیادہ تجاوز ہو گئیں تھیں‘۔
ایلون مسک کی معذرت اس وقت سامنے آئی ہے جب دونوں شخصیات کے درمیان کھلا تنازع شدت اختیار کر گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک میں دوریاں بڑھنے لگیں، امریکی صدر نے ایک اور دھمکی دے دی
مسک نے گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جیفری ایپسٹین فائلز کو جاری نہیں کر رہے تاکہ اپنی مبینہ وابستگی کو چھپا سکیں۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ نے نیویارک پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مسک سے صلح کے امکان کا عندیہ دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ”مجھے تھوڑا افسوس ہوا، لیکن میرے دل میں کوئی رنجش نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اُسے (مسک) اپنی باتوں پر واقعی افسوس ہے۔“
ایلون مسک ماضی میں ٹرمپ کی انتخابی مہم اور پالیسیوں کے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے، انہوں نے ٹرمپ کے ٹیکس اور اخراجاتی بل کو ”قابل نفرت قانون“ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ٹرمپ کے خلاف متعدد پوسٹس کیں، یہاں تک کہ ان کے مواخذے کی بھی حمایت کی۔
اس کشیدگی کے دوران ٹرمپ نے خبردار کیا کہ وہ ایلون مسک کی کمپنیوں ٹیسلا اور اسپیس ایکس، کو دیے جانے والے سرکاری معاہدے اور سبسڈیز منسوخ کر سکتے ہیں۔
ایلون مسک نے اب ٹرمپ کے خلاف کی گئی اپنی کئی پوسٹس ڈیلیٹ کر دی ہیں اور ان کے چند بیانات کی حمایت میں پوسٹس شیئر کی ہیں، جو اس بات کی علامت سمجھی جا رہی ہے کہ وہ تعلقات میں نرمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایلون مسک کی ٹرمپ کے ٹیکس کٹوتی اخراجات بل پر کڑی تنقید
یاد رہے کہ مسک ٹرمپ کی 2024 کی صدارتی مہم کے سب سے بڑے ڈونر تھے اور انہیں صدر کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ سابق مشیر اسٹیو بینن نے مطالبہ کیا کہ مسک کو، جو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، ملک بدر کر دیا جائے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے امید ظاہر کی ہے کہ ”ایلون مسک دوبارہ ہماری صفوں میں واپس آئیں گے“، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ مسک ”انتہائی سطح“ تک جا چکے ہیں۔ زیادہ تر ریپبلکن رہنماؤں نے دونوں شخصیات کے درمیان صلح کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جبکہ ڈیموکریٹس اس تنازعے کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔