سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری اور سینیئر سیاستدان سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے ایران پر اسرائیلی حملوں پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے اعلانِ جنگ قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے آج نیوز کے پروگرام ”رو برو“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایران کی عسکری اور سائنسی قیادت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے پہلے لبنان میں ایران کی پراکسیز کو ختم کیا، حزب اللہ کے فائٹرز کو شہید کیا، اور پھر ایرانی فورسز کے سربراہ اور نیوکلیئر سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق یہ کوئی پہلا حملہ نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے، جس میں ایران مسلسل غیر مؤثر نظر آیا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو نے خود اس کارروائی پر فخر کا اظہار کیا، اور ایران کی قیادت کے پاس نہ ڈیل کرنے کی حکمت عملی ہے اور نہ ردعمل دینے کی صلاحیت۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے 1985 سے ٹیکنالوجی پر کام کیا، امریکا اور مغربی دنیا کی پشت پناہی حاصل رہی، اور آج ایران صرف زبانی بیانات تک محدود ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی اسحاق ڈار اور شہباز شریف کا بیان دیکھا ہے، یہ تو بالکل طے ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام ہماری تمام تر ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ کسی کو بھی قبول نہیں کہ ایران کے پاس نیوکلیئر پاور ہو، ایران نے خود بھی کہا کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار نہیں بنانا چاہتے لیکن جب آپ نہیں بنانا چاہتے، جیسے لبنان میں جو ایران کی صلاحیت تھی اسے اسرائیل ختم کر چکا ہے تو مجھے سسمجھ نہیں آ رہی کہ ایران کی لیڈر شپ کس بل بوتے کے اوپر امریکا کی ڈیل رفیوژ کی۔
سینیٹر مصطفٰی کھوکھر کی گفتگو
سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے بھی آج نیوز کے پروگرام روبرو میں گفتگو میں کہا کہ ایران ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کی حمایت کی اور اب جب ایران مشکل میں ہے تو پاکستان کو بھی اس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین میں کھلی نسل کشی کی، اور اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر نے اس کی مذمت کی ہے۔
سینئر سیاستدان سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے ایران پر حملے کو ”ڈکلیریشن آف وار“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے پہلے شام، لبنان، اور دیگر قریبی مقامات کو نیوٹرلائز کیا، اور اب براہ راست ایران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ، حسن نصراللہ اور حماس اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ تھے جنہیں مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے عالمی نظام پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کا نظام بڑی طاقتوں، خصوصاً امریکا کے ویٹو پاور کے باعث غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی قرارداد کو امریکا فوراً ویٹو کر دیتا ہے، جس سے عالمی قوانین کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ سفارتی اور اخلاقی حمایت کا بھرپور اظہار کرنا چاہیے اور خطے میں مزید جنگ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو بھی مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔