شنگھائی تعاون تنظیم میں اسرائیل کے حالیہ فضائی حملوں کے تناظر میں جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں جہاں تمام رکن ممالک نے ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیلی کارروائی کی شدید مذمت کی، وہیں بھارت نے خود کو اس اجتماعی مؤقف سے علیحدہ کر کے اپنی دوغلی سفارت کاری اور مفاد پرستی کو آشکار کر دیا۔
ایس سی او کے جاری کردہ اعلامیے میں اسرائیلی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ ایران کی خودمختاری پر حملہ عالمی اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے، جب کہ عام شہریوں کی ہلاکت اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ فورم نے سیاسی و سفارتی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عسکری کارروائیوں کی بھرپور مخالفت کی۔
تاہم بھارت، جو خود شنگھائی تعاون تنظیم کا باضابطہ رکن ہے، اس اجتماعی اعلامیے کا حصہ نہ بن سکا۔ بھارت نے ایک الگ، مبہم اور نرم لہجے میں بیان جاری کیا جس میں نہ تو اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی اور نہ ہی ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ یہ روش اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی کو اصولوں نہیں بلکہ موقع پرستی، اسلحہ سودوں اور علاقائی سیاسی مفادات کی بنیاد پر ترتیب دیتا ہے۔
سفارتی مبصرین کے مطابق بھارت کا یہ مؤقف شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی اصولوں سے انحراف کے مترادف ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر، ریاستی خودمختاری کے احترام اور علاقائی یکجہتی پر زور دیتا ہے۔ اگر بھارت ان اصولوں کا احترام نہیں کرتا، تو اس کی رکنیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
بھارت کا طرز عمل نہ صرف ایرانی عوام کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ یہشنگھائی تعاون تنظیم کی اتحاد اور مقصدیت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اس عمل کو ایران کے خلاف خاموش حمایت اور اسرائیل کے ساتھ درپردہ مفادات کا عکاس سمجھا جا رہا ہے۔
بھارت ایک طرف تہذیب، انسانیت اور اصولوں پر مبنی خارجہ پالیسی کا دعویٰ کرتا ہے، مگر دوسری طرف اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کر کے وہ ان دعوؤں کو خود ہی جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اہم علاقائی اتحاد میں بھی بھارت کی جانب سے یکجہتی کے بجائے مفاد پرستانہ طرز عمل اس کی اخلاقی ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔