ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، جس میں صیہونی جارحیت کی شدید مذمت کی گئی ہے اور خطے میں جنگ کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے تناظر میں مسلم ممالک نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اعلامیہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیل کی حالیہ فوجی جارحیت کے خلاف متفقہ موقف پر مبنی ہے اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتا ہے۔
نیتن یاہو کا آیت اللہ خامنہ ای پر حملے کا اشارہ، ایران کی حکومت گرانے کی کھلی دھمکی
اعلامیہ کی توثیق کرنے والے ممالک میں الجزائر، بحرین، برونائی دارالسلام، چاڈ، اتحاد القمری، جبوتی، مصر، عراق، اردن، کویت، لیبیا، موریطانیہ، پاکستان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، ترکیہ، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
اعلامیہ میں 13 جون 2025 سے ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کی دوٹوک مذمت اور ان اقدامات کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام، حسن ہمسائیگی اور تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
ایران نے اسرائیل پر تباہ کن حملے میں کونسے میزائل اور ہتھیار استعمال کئے؟
اعلامیہ میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کی شدید ضرورت پر زور دیا گیا، جو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے دوران کی جا رہی ہے۔ اعلامیہ میں جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لیے کام کرنے کی اہمیت اجاگر کی گئی اور اس خطرناک کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا جو خطے کے امن و استحکام پر سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
بیان میں مشرق وسطیٰ کو جوہری اور دیگر تباہ کن ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ خطے کے تمام ممالک بلااستثناء این پی ٹی (جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) میں شامل ہوں۔
ایرانی جوہری تنصیبات کو ہلا کر رکھ دینے والا اسرائیلی ’ایم پی آر 500‘ بم کتنا طاقتور ہے؟
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں موجود جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کی اہمیت پر زور دیا گیا، کیونکہ ایسے اقدامات بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون، اور 1949 کے جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
اعلامیہ میں ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے پائیدار معاہدے کے حصول کے لیے مذاکرات کی راہ پر فوری واپسی کو واحد قابل عمل راستہ قرار دیا گیا۔
جنگ میں شدت: ایرانی ایف 14 تباہ، اسرائیل کا ایف 35 مار گرایا گیا
اس کے علاوہ بین الاقوامی آبی گزرگاہوں میں بحری جہاز رانی کی آزادی اور سمندری سلامتی کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا گیا، اور کہا گیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ان امور کا احترام لازم ہے۔
سفارت کاری، مکالمہ اور بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حسن ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری کو خطے کے بحرانوں کے حل کے لیے واحد قابل عمل راستہ قرار دیا گیا۔ اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ فوجی ذرائع کے ذریعے پائیدار حل ممکن نہیں۔