ایران-اسرائیل جنگ میں شدت، صف بندی تیز، عالمی طاقتوں نے مورچے سنبھالنے شروع کردئے، کون کس کے ساتھ کھڑا ہے؟

0 minutes, 0 seconds Read

مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ نے عالمی طاقتوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک جانب امریکا اور برطانیہ ایران کے خلاف صف آرا ہیں تو دوسری جانب فرانس، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک نے یا تو اس کشیدگی سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے یا ایران کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ عالمی منظرنامہ خطرناک حد تک کشیدہ ہو چکا ہے، جہاں ہر لمحہ صورتحال مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔

برطانیہ نے امریکا کے بعد اپنے لڑاکا طیاروں کو مشرق وسطیٰ منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ لندن میں برطانوی سیکرٹری دفاع نے اس اقدام کو ”تناؤ میں کمی کے لیے احتیاطی تدبیر“ قرار دیا ہے، تاہم یہ پیش رفت واضح طور پر جنگی تیاریوں کی غمازی کر رہی ہے۔ اس کے برعکس فرانس نے طاقت کے استعمال اور ایران میں حکومتی تبدیلی کی کسی بھی کوشش کو ”غلطی“ قرار دے دیا ہے۔ پیرس میں فرانسیسی صدر نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے اس عمل کی مخالفت کی ہے، جو واضح طور پر امریکی پالیسی سے انحراف ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا ٹرمپ کی دھمکی پر جواب: ’صہیونیوں سے کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا‘

اسرائیل اور امریکا کے مابین بڑھتی قربت اور ٹرمپ کی دھمکیوں پر امریکی کانگریس کی رکن الہان عمر نے شدید ردعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کسی نے امریکا پر نہ حملہ کیا ہے، نہ کرنے جا رہا ہے۔‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ’یہ وقت ہے کہ امریکا کو اس جنگ میں جھونکنے سے روکا جائے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل امریکا کو اپنی جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے اور ’امریکیوں کو ایک اور نسل کو آگ میں نہیں جھونکنا چاہیے۔‘

دوسری جانب ایران نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے تازہ حملوں میں اسرائیل کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ایرانی فوج نے واضح اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اصل جنگ تو اب شروع ہوگی‘ اور اسرائیل کے شہریوں کو حیفہ اور جافا جیسے شہروں کو فوری خالی کرنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔

ایران پر حملے کی تیاریاں مکمل، نیویارک ٹائمز نے ٹرمپ کے منصوبے سے پردہ اٹھا دیا

واشنگٹن میں امریکی میڈیا کے مطابق ایران نے امریکا کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ایک معروف امریکی اخبار کے مطابق ایران کی جانب سے فردو پر کسی بھی ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں سخت ردعمل دیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق حملوں کا آغاز عراق سے ہو سکتا ہے جبکہ آبنائے ہرمز میں ایران بارودی سرنگیں بچھانے کی حکمت عملی اپنا چکا ہے۔ ساتھ ہی حوثی جنگجو بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے مستعد ہیں۔

صدر ٹرمپ نے نیشنل سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں طویل اجلاس منعقد کیا جو ایک گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ اجلاس میں ایران پر ممکنہ حملے کے تمام پہلوؤں پر غور کیا گیا، جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ امریکا کسی بھی وقت کھلی جنگ کا آغاز کر سکتا ہے۔

اس تمام صورتحال میں حیران کن طور پر متحدہ عرب امارات نے ایران کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ولی عہد محمد بن زاید النہیان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ان مشکل حالات میں ہم ایران کی حمایت کرتے ہیں۔‘ ساتھ ہی یو اے ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل-ایران تنازعے پر فوری ایکشن لینے کی اپیل بھی کی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک میں بھی اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے نہیں۔

’میزائل نہ رکے تو آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کردیں گے‘، ٹرمپ کی ایران کو بڑی دھمکی

صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نئی کروٹ لے رہی ہے، اور عالمی جنگ کے خدشات پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں پر فوری ایکشن لینے کے دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، لیکن بڑی قوتوں کے باہمی تضادات دنیا کو تباہ کن تصادم کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

Similar Posts