امریکہ نے اتوار کی صبح ایران میں تین نیوکلیئر تنصیبات پر براہ راست فضائی حملے کردیے، جن کے ذریعے واشنگٹن نے پہلی بار براہ راست اسرائیل کی جاری جنگ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کی دھمکیاں خطے کو ممکنہ وسیع جنگ کی طرف دھکیل رہی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کا سب سے پہلے سوشل میڈیا پر اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کے فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع نیوکلیئر مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایران کے تین نیوکلیئر سائٹس پر اپنا بہت کامیاب حملہ مکمل کر لیا ہے، تمام طیارے ایرانی فضائی حدود سے باہر نکل چکے ہیں، فردو سائٹ پر مکمل بمباری کی گئی اور تمام طیارے بحفاظت واپس روانہ ہو چکے ہیں۔‘
اسرائیل کا اصفہان میں نیوکلیئر سائٹ پر حملہ، جوہری سائنسدان ایثار طباطبائی قمشہ اہلیہ سمیت شہید
ایرانی حکومت نے فوری طور پر حملوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی، تاہم ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ”ارنا“ نے بتایا کہ یہ حملے فردو، اصفہان اور نطنز کی نیوکلیئر تنصیبات پر کیے گئے، تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
ٹرمپ نے بعدازاں ایک اور پیغام میں کہا، ’یہ امریکہ، اسرائیل اور دنیا کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ایران کو اب اس جنگ کے خاتمے پر رضامند ہو جانا چاہیے۔ شکریہ!‘
اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے امریکی حملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’صدر ٹرمپ کا شکریہ جنہوں نے ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ آج صدر ٹرمپ نے ثابت کیا کہ ”کبھی دوبارہ نہیں“ صرف نعرہ نہیں بلکہ عملی پالیسی ہے۔‘
فاکس نیوز کے اینکر شان ہینٹی نے دعویٰ کیا کہ انہیں صدر ٹرمپ سے ذاتی طور پر معلومات ملی ہیں جن کے مطابق فردو نیوکلیئر تنصیب پر 6 ”بنکر بسٹر“ بم استعمال کیے گئے، جبکہ امریکی آبدوزوں سے 30 ٹوماہاک میزائل داغے گئے جو نطنز اور اصفہان کی سائٹس پر گرے۔
یہ حملے امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اظہار ہیں۔ صدر ٹرمپ ماضی میں امریکی مداخلت پسندی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور صدارتی مہم کے دوران امریکہ کو مہنگی غیر ملکی جنگوں سے دور رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم ایران کی ایٹمی صلاحیت پر قابو پانے کے لیے انہوں نے بالآخر طاقت کا راستہ اختیار کیا۔
ٹرمپ نے جمعے کو کہا تھا کہ وہ ایران میں زمینی افواج بھیجنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ ’یہ وہ آخری کام ہے جو آپ کرنا چاہیں گے۔‘ اس کے باوجود وہ دو ہفتوں میں فیصلہ کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی حملوں کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر اسلامی جمہوریہ کو نشانہ بنایا گیا تو یہ امریکہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنے گا۔‘ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی خبردار کیا تھا کہ ’امریکی مداخلت خطے میں مکمل جنگ کی بنیاد بنے گی۔‘
ایرانی سپریم لیڈر نے جانشینی کیلئے 3 نام تجویز کر دیے، امریکی اخبار کا دعوٰی
صدر ٹرمپ پہلے ہی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امید رکھتے ہیں کہ طاقت کی دھمکی سے ایرانی قیادت پرامن طریقے سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ تاہم تازہ حملے اس کشمکش کو نئے، خطرناک مرحلے میں داخل کر چکے ہیں۔