’کئی ممالک ایران کو اپنے نیوکلئیر وارہیڈز دینے کو تیار‘: روسی اہلکار کا انکشاف

0 minutes, 0 seconds Read

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے اعلیٰ سطحی مشاورت کے لیے ماسکو پہنچ چکے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکی فضائی حملوں نے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، جسے واشنگٹن نے ’ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایک ضروری قدم‘ قرار دیا ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے استنبول میں جاری اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے عباس عراقچی نے کہا کہ ’روس ایران کا دوست ہے، ہم ہمیشہ مشورہ کرتے ہیں۔ میں آج ماسکو جا رہا ہوں، کل صبح صدر پیوٹن سے سنجیدہ بات چیت ہوگی۔‘

امریکی حملے کے بعد ایرانی جوہری تنصیبات کی سیٹلائٹ تصاویر سامنے آگئیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ہفتے کی رات یہ حملے کیے گئے، جنہیں اسرائیل کی قیادت میں جاری فضائی مہم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کا مقصد ایران کے ممکنہ ایٹمی پروگرام کو غیر فعال کرنا تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ ’ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ ایک بڑی سرخ لکیر کو عبور کرنا ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اور ہم ضرور جواب دیں گے۔‘

ادھر ماسکو میں روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین اور سابق صدر دیمتری میدویدیف نے امریکی صدر ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ، جو امن کے دعوے کے ساتھ آئے تھے، انہوں نے امریکا کو ایک نئی جنگ میں جھونک دیا ہے۔‘

میدویدیف نے اپنی ٹیلگرام پوسٹ میں کہا کہ امریکی حملے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام رہے۔ ان کے مطابق، ’جوہری فیول سائیکل کے بنیادی ڈھانچے کو یا تو کوئی نقصان نہیں پہنچا یا صرف معمولی نقصان ہوا۔ افزودگی اور ممکنہ ہتھیار سازی جاری رہے گی۔‘

میدویدیف نے انکشاف کیا کہ ’کئی ممالک ایران کو براہ راست اپنے جوہری وارہیڈز فراہم کرنے کو تیار ہیں۔‘ تاہم انہوں نے ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی آبادی اب مسلسل خطرے میں ہے، اور ملک کے کئی حصے دھماکوں سے گونج رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ’امریکا ایک نئے تنازع میں الجھ چکا ہے اور زمینی کارروائی کا خطرہ بھی افق پر ظاہر ہو رہا ہے۔‘

ایران پر حملوں کے بعد روس کا محتاط ردعمل، پیوٹن کا ٹرمپ سے بات کرنے کا فوری ارادہ نہیں: کریملن

میدویدیف کا کہنا تھا کہ امریکی حملوں کے باوجود ایران کا سیاسی نظام نہ صرف محفوظ رہا بلکہ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ ’ایرانی عوام اپنے روحانی قیادت کے گرد جمع ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ افراد بھی جو پہلے مخالف یا لاتعلق تھے۔‘

ایران کی جانب سے مذاکرات کے مستقبل پر بھی سخت مؤقف اختیار کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ’ہم سفارتکاری کے درمیان میں تھے۔ ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے کہ اسرائیل نے سب کچھ سبوتاژ کر دیا۔‘

انہوں نے انکشاف کیا کہ حملے سے صرف دو روز قبل جنیوا میں یورپی ثالثوں کے ساتھ مذاکرات جاری تھے۔ ’لیکن اس بار بھی، فیصلہ امریکا نے کیا کہ وہ ہر چیز تباہ کر دے۔ ایران نے نہیں، امریکا نے سفارتکاری سے دھوکہ کیا۔‘

ایرانی میزائلوں کا مغرب کو جھٹکا: آئرن ڈوم سے لے کر امریکی دفاعی نظام تک کوئی پکڑ نہ پایا

عراقچی نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے خود کو مستقبل کے کسی بھی امن عمل سے نااہل ثابت کر دیا ہے۔ ’انہوں نے دکھا دیا کہ وہ سفارتکاری کے آدمی نہیں، وہ صرف دھمکی اور طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔‘

Similar Posts