ایٹمی تاریخ کے پہلے حملے کی اندرونی کہانی، بم گرانے والے جہاز کے نیویگیٹر کی زبانی

0 minutes, 0 seconds Read

6 اگست 1945 ایک ایسی تاریخ جس نے دنیا کی سمت بدل دی۔ جاپان کا شہر ہیروشیما اُس روز سورج کی روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ دریا صاف دکھائی دے رہے تھے، عمارتیں جگمگا رہی تھیں، اور آسمان مکمل طور پر شفاف تھا۔ لیکن اسی روشنی میں آسمان کی بلندیوں پر ایک طیارہ پرواز کر رہا تھا ”انولا گے“ جس میں چھپا تھا دنیا کا پہلا ایٹمی بم ”لٹل بوائے“۔

اُس طیارے کے نیویگیٹر، تھیوڈور ”ڈچ“ وان کرک نے 2004 میں ایٹمی حملے کی کہانی سنائی تھی جب وہ 83 برس کے تھے۔ اُن کے مطابق ”انولا گے“ کے 58 مشنز کی لاگ بکس دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ 59واں مشن ہیروشیما پر بمباری، صرف ایک جنگی کارروائی نہیں تھی بلکہ انسانی تاریخ کی سب سے سنگین مثال بننے والا تھا۔

28 مئی 1998: جب چاغی کے پہاڑوں میں ہوئے دھماکوں سے دنیا لرز اُٹھی

یہ سب کچھ ٹینیان کے جزیرے سے شروع ہوا، جہاں خفیہ طور پر 509ویں کمپوزٹ گروپ کے جوانوں کو الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔ نہ وہ جانتے تھے کہ وہ کس چیز کی مشق کر رہے ہیں نہ یہ کہ اُن کا ہدف کیا ہوگا۔ ایک روز اچانک انہیں بتایا گیا کہ وہ ایک ”خصوصی بم“ استعمال کریں گے اور یہ بم ایک پورے شہر کو مٹانے کی طاقت رکھتا ہے۔

وان کرک بتاتے ہیں کہ جب ”انولا گے“ پر فلڈ لائٹس لگائی گئیں، رپورٹرز اور فوٹوگرافرز آ پہنچے تو منظر کسی ہالی وڈ فلم کے ریڈ کارپٹ جیسا لگا۔ مگر اُن کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ کسی فلمی سین سے کہیں زیادہ سنجیدہ تھا۔

وان کرک نے کہا، ’ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم سزائے موت سے پہلے کا ناشتہ کر رہے ہوں۔‘

صبح 2 بج کر 45 منٹ پر“انولا گے“ نے پرواز بھری۔ پائلٹ پال ٹبٹس، نیویگیٹر وان کرک، بمبارڈئیر ٹام فریبی، اور بم کے ٹیکنیکل ماہرین پارسنز اور جیپسن سب سوار تھے۔ راستے میں طیارے میں ہی بم کو مسلح کیا گیا۔ جیپسن نے ہمیں بتایا کہ کیسے انہوں نے چار بارود بھرے تھیلے بم کے اندر ڈالے، ایک ایسی کارروائی جو عام طور پر زمین پر ہوتی ہے مگر یہاں 30,000 فٹ کی بلندی پر ہو رہی تھی۔

ناگاساکی سے پہلے امریکا کے ایٹم بم کا نشانہ کیا تھا؟

جب جاپان کا ساحل قریب آیا تو ایک آخری قدم باقی تھا تین حفاظتی پلگ نکال کر سرخ ”آرمینگ پلگ“ لگانا۔

جیپسن نے بتایا، ’یہ لمحہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ میں ہی تھا جس نے بم کو مکمل طور پر فعال کیا۔‘

آسمان سے موسم کی رپورٹ آئی، ’ہیروشیما پر موسم صاف ہے۔‘ ٹبٹس نے انٹریکوم پر اعلان کیا کہ ’یہ ہیروشیما ہے۔‘

وہ شہر جو اب تک بمباری سے محفوظ رکھا گیا تھا تاکہ اس پر ایٹمی تجربہ کیا جا سکے، نیچے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایک ”T“ شکل کا پل بمباری کا ہدف مقرر ہوا۔ وان کرک نے بتایا کہ ’میں نے گھڑی دیکھی ٹھیک 9 بجے ہم نے اپنا ٹرن لیا جیسے ہمیشہ وقت کا پابند رہا ہوں ویسے ہی اُس دن بھی تھا۔‘
پندرہ سیکنڈ پہلے فریبی نے سوئچ دبایا، خبردار کرنے والا سُر چلا اور پھر ”لٹل بوائے“ ایٹمی بم طیارے سے نکل گیا۔

 ”لٹل بوائے“ ایٹمی بم
”لٹل بوائے“ ایٹمی بم

طیارہ تیز موڑ پر مڑا تاکہ دھماکے کے اثرات سے بچا جا سکے۔ پورے عملے نے گنتی شروع کی 43 سیکنڈ۔

جیپسن نے بتایا کہ ’میں نے دل میں گنتی کی اتنی تیز کہ ایک لمحے کو لگا شاید بم ناکام ہو گیا، لیکن پھرایک زبردست سفید روشنی نظر آیا جیسے پوری کائنات ایک لمحے کے لیے جل اٹھی ہو۔‘

وان کرک کے مطابق، ’میں نے آنکھوں پر چشمہ پہن رکھا تھا مگر روشنی اتنی تیز تھی کہ لگا چہرے پر فلیش مارا گیا ہو۔‘

پھر دوسرا دھچکا اور پھر کھڑکی سے جھانک کر جو منظر دیکھا گیا وہ انسانی تاریخ کا سب سے بھیانک تھا۔

”شہر نہیں رہا“ خاموشی، بادل، اور خالی زمین

وان کرک نے کہا، ’جس شہر کو ہم لمحے بھر پہلے دیکھ رہے تھے وہ اب صرف سیاہ دھواں تھا، ایک ابلتا ہوا بادل جو آسمان کو چاٹ رہا تھا۔‘

’دی گریٹ آرٹسٹ‘ میں سوار آلبری نے بادل میں ہر رنگ دیکھا گلابی، نیلا، سبز۔

ایگنیو نے اپنی چھپائی ہوئی 16ملی میٹر فلمی کیمرہ نکالا اور فلم بندی کی وہ واحد ویڈیو جو آج ہیروشیما کی بصری گواہی ہے کیونکہ باقی تمام سرکاری کیمرے ناکام ہو گئے تھے۔

 ایٹم بم سے اٹھنے والے دھویں کی تصویر
ایٹم بم سے اٹھنے والے دھویں کی تصویر

”انولا گے“ کے شریک پائلٹ لیوس نے اپنی لاگ بک میں لکھا، ’یا خدا ہم نے کیا کر دیا؟ اگر میں 100 سال بھی زندہ رہا تو یہ لمحے کبھی نہیں بھولوں گا۔‘

ٹبٹس نے سادہ انداز میں اعلان کیا: ’دوستو، آپ نے تاریخ کا پہلا ایٹمی بم گرا دیا ہے۔‘

خوف، سکوت، اور واپسی

عملے میں سے کسی نے زمین پر موجود لوگوں کا ذکر نہیں کیا۔ کسی نے موت، راکھ، یا آگ کا ذکر نہیں کیا۔

دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر، اور ایک جاندار جو نیوکلئیر دھماکوں سے بھی نہیں مرے گا

وان کرک نے کہا، ’ہم سب صرف یہی سوچ رہے تھے کہ بم نے کام کیا۔ جنگ شاید ختم ہو گئی ہے۔ ہم گھر جا سکیں گے۔‘

مگر 400 میل دور جا کر بھی وہ مشروم نما بادل ہمیں پیچھا کرتا نظر آ رہا تھا جیسے تاریخ ہمیں دیکھ رہی ہو اور ہم اُسے نظر انداز کر کے واپس پلٹ رہے ہوں۔

Similar Posts