کیا آپ کبھی اپنے ہی ملک میں غیر ملکی بنے ہیں، کیا آپ کو آپ کی شناخت سے محروم کیا گیا ہے، کیا آپ کو مذھب اور عقائد کی بنا پر ریاست کا عذاب جھیلنا پڑا ہے، اگر نہیں تو یقینی طور پر آپ اس دکھ، اذیت اور تکلیف کو محسوس نہیں کر سکتے۔ بھارت میں مسلمانوں کیساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے، کس طرح صدیوں سے آباد شہریوں کو اجنبی قرار دیا جا رہا ہے، بھارتی جنتا پارٹی کس طرح ہندوتوا کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں، چلیں جانتے ہیں۔
خیرالاسلام، مورگاؤں کا ایک پرائمری اسکول ٹیچر، کہتا ہے، ’مجھے جبری طور پر بنگلہ دیش بھیجا گیا، جیسے موت کا پروانہ تھما دیا ہو۔‘ ان کے پاس برطانوی دور کے زمین کے دستاویزات موجود ہیں جو انہیں بھارتی شہری کی شناخت دیتی ہیں، مگر اس کے باوجود خیرالاسلام کو ’غیر ملکی‘ قرار دے دیا گیا۔
نِظام احمد، جن کا نام بھارت کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) میں موجود ہے، اور جن کے والد ریاستی پولیس میں 1960 سے 2001 تک خدمات انجام دے چکے ہیں، اُنہیں بھی بنگلہ دیشی بنا دیا گیا۔ اُن کے بیٹے زاہد کا کہنا ہے کہ ’اگر دادا زندہ ہوتے تو سب سے زیادہ انہیں دکھ ہوتا کہ ایک سپاہی کے بیٹے کو ملک نے بے وطن بنا دیا
نیلے آسمان کے سائے تلے کیچڑ میں بیٹھے ایک 67 سالہ بوڑھے شخص کی تصویر دل کو چیر دیتی ہے۔ آنکھوں میں درد، چہرے پر اذیت، اور پس منظر میں خاموشی کا شور سماعتوں کو دہلا دیتا ہے۔ یہ تصویر اُفا علی کی ہے، ایک سائیکل مکینک، ایک ”بھارتی مسلمان“، جسے اس کے ہی ملک نے شناخت سے محروم کر کے، زبردستی بنگلہ دیش کی سرحد پر پھینک دیا۔
اُفا علی نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو بتایا ’ہم نے آسمان کے نیچے جہنم دیکھا، اپنی زندگی کو مرتے محسوس کیا،‘ یہ ایک بوڑھے کی پکار نہیں بلکہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری نسل کشی کی جیتی جاگتی گواہی ہے۔
ظلم کی داستان: شناخت کی قبروں میں دفن ہوتے مسلمان
یہ کہانی صرف اُفا علی کی نہیں۔ یہ کہانی ہے اُن سینکڑوں مسلمانوں کی جنہیں بھارتی ریاست آسام سے ”غیر ملکی“ قرار دے کر بنگلہ دیش کی سرحد پر چھوڑا جا رہا ہے۔ جب اُفا علی کو آسام کے مورے گاؤں سے پولیس نے 23 مئی کو گرفتار کیا، وہ سمجھ بھی نہ سکا کہ کس جرم کی پاداش میں اُس کے پاؤں تلے زمین کھینچ لی گئی ہے۔ اُسے 200 کلومیٹر دور ماتیہ کے حراستی مرکز لے جایا گیا، اور پھر 27 مئی کو بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے اُس سمیت دیگر 13 مسلمانوں کو صبح سویرے بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچا کر زبردستی سرحد پار ”دھکیلنے“ کی کوشش کی۔
لیکن حیرت انگیز طور پر بنگلہ دیشی سرحدی اہلکاروں (بی جی بی) اور مقامی شہریوں نے انہیں لینے سے انکار کر دیا، یہ کہہ کر کہ ’یہ بھارتی ہیں، بنگلہ دیشی نہیں!‘۔
’وہ ملک ہمارا تھا، مگر ہم اس کے نہ رہے‘
یہ بات صرف اُفا علی تک محدود نہیں۔ پچاس سالہ رحیمہ بیگم کو بھی آسام کے ضلع گولاگھاٹ سے اٹھایا گیا، اور جب اُس نے بنگلہ دیش کی طرف بھاگنے کی کوشش کی تو بنگلہ دیشی اہلکاروں نے اُسے مارا۔ پیچھے ہٹی تو بھارتی بی ایس ایف اہلکاروں نے گولی چلائی۔
’انہوں نے ہمیں کہا: واپس آئے تو گولی مار دیں گے!‘ رحیمہ بیگم کی سسکتی ہوئی آواز میں صرف درد نہیں، اُس مادرِ وطن کی بے وفائی بھی گونجتی ہے جس پر اس نے زندگی بھر بھروسا کیا۔
صرف مسلمان کیوں؟ بنگلہ بولنے کی سزا؟
بی جے پی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ یہ مہم ’غیر قانونی تارکین وطن‘ کے خلاف ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کارروائیاں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ ریاستی وزیرِ اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما خود کہتے ہیں کہ ’یہ سب مسلمان ہیں، اور یہ مہم جاری رہے گی۔‘
یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں حملہ ہوا، اور بی جے پی حکومت نے اس واقعے کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کے خلاف ایک نئے سیکیورٹی بیانیے کو ہوا دی۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ ’ہندوستان میں مسلم شناخت کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔‘
”میاں“ کہہ کر نکالا گیا!
آسام میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو حقارت سے ”میاں“ کہا جاتا ہے، یہ لفظ اب نسل پرستی کی علامت بن چکا ہے۔ عبدالحنیف کو پولیس نے بغیر کسی عدالتی حکم یا کاغذی کارروائی کے گولاگھاٹ سے اغوا کیا۔ اس کا بھائی دین اسلام کہتا ہے، ’ہم ہر تھانے میں گئے، پولیس کچھ نہیں بتاتی۔ صرف اس لیے اُسے اٹھا لیا کہ ہم ”میاں“ ہیں۔‘
بے آواز انسانوں کی آہیں
بنگلہ دیش نے احتجاج کیا ہے کہ بھارت بغیر کسی سفارتی طریقہ کار کے مسلمانوں کو اُس کی سرحد میں دھکیل رہا ہے۔ مگر بھارت کے وزارتِ خارجہ یا بی ایس ایف کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
آسام کی نام نہاد ”فارن ٹریبونلز“، جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے ’متعصب‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا ہے، مسلمانوں کو شناختی دستاویزات میں صرف معمولی املا کی غلطیوں پر غیر ملکی قرار دے دیتی ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں؟
آج اُفا علی، رحیمہ بیگم، خیرالاسلام، نِجام احمد، اور عبدالحنیف جیسے سینکڑوں مسلمان اُس سرزمین میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں جہاں ان کے آباؤ اجداد نے زندگی گزاری، قربانیاں دیں، اور وطن بنایا۔ مگر بھارت کا ہندو انتہا پسند نظام انہیں صرف اس لیے نکال باہر کر رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، اور بنگلہ بولتے ہیں۔
’یہ ملک میرا ہے، مگر میں اس کی نہیں‘، رحیمہ بیگم کا یہ جملہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک نوحہ بن چکا ہے۔
یہ صرف سرحد پر کیچڑ میں سسکتے مسلمان نہیں… یہ پورے بھارت میں جمہوریت، مساوات اور انصاف کی بدبو چھوڑتی لاش ہے۔ (بشکریہ الجزیرہ)