امریکی صدر ظہران ممدانی کی جیت پر پھٹ پڑے، ’سو فیصد کمیونسٹ پاگل‘ قرار دے دیا

0 minutes, 0 seconds Read

نیویارک سٹی کے میئر کے لیے ڈیموکریٹک پرائمری میں 33 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ ظہران ممدانی نے منگل کی رات حیران کن کامیابی حاصل کر کے سب کو چونکا دیا۔ اس کامیابی کے بعد وہ شہر کے ممکنہ میئر بننے کے قریب پہنچ گئے ہیں، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ”سو فیصد کمیونسٹ پاگل“ قرار دے دیا۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا، ’ظہران ممدانی، ایک 100 فیصد کمیونسٹ پاگل، ڈیموکریٹک پرائمری جیت گیا ہے اور اب میئر بننے جا رہا ہے۔ ہم پہلے بھی انتہا پسند بائیں بازو کے لوگوں کو دیکھ چکے ہیں، لیکن یہ تو حد سے بڑھ گیا ہے۔ وہ بہت دردناک ہے، اس کی آواز ناقابلِ برداشت ہے، اور وہ زیادہ ذہین بھی نہیں۔‘

ایک اور پوسٹ میں ٹرمپ نے امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹک اراکین کو بھی نشانہ بنایا، جنہوں نے ممدانی کی حمایت کی، بشمول نمایاں رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز۔ ٹرمپ نے سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے اقلیتی لیڈر چَک شومر کو طنزیہ انداز میں ’’ہمارے عظیم فلسطینی سینیٹر‘‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ ’رونے والا چَک شومر ممدانی کے آگے جھک رہا ہے۔‘

ظہران ممدانی، جو 2021 سے نیویارک کے علاقے آستوریا، کوئنز کی ریاستی اسمبلی میں نمائندگی کر رہے ہیں، اب ممکنہ طور پر نیویارک سٹی کے میئر کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ ان کی مہم میں شہر کے بسوں کو مفت کرنا، کرایہ میں اضافے پر پابندی لگانا، اور سرکاری گروسری اسٹورز کھولنا شامل ہے، جس کے لیے وہ کاروباری طبقے اور امیر افراد پر 10 ارب ڈالر کے ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کر چکے ہیں۔

ممدانی کے فلسطین کے حق میں واضح مؤقف نے بھی ان کی شہرت میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے عوامی طور پر اعلان کیا کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نیویارک کا دورہ کریں گے تو وہ ان کی گرفتاری کا حکم دیں گے، کیونکہ نومبر 2024 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

ممدانی نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں شرکت کی اور ’’بائیکاٹ، سرمایہ نکالو، اور پابندیاں لگاؤ (BDS)‘‘ تحریک کے حق میں نعرے بھی لگائے، جس پر اسرائیل نواز حلقوں نے شدید تنقید کی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ظہران ممدانی کی کامیابی امریکی سیاست میں ترقی پسند نظریات کے لیے ایک بڑی آزمائش بن سکتی ہے، اور ریپبلکن جماعت اسے ڈیموکریٹس کے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ نیویارک جیسے بڑے شہر میں یہ انتخاب اب قومی سطح پر توجہ حاصل کرنے جا رہا ہے۔

Similar Posts