امریکہ کے کھوئے ہوئے نیوکلئیر بموں سے دنیا خطرے میں

0 minutes, 2 seconds Read

امریکہ کے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں کہ وہ زمین پر زندگی کا بڑا حصہ صفحۂ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ مگر دنیا کی اس واحد سپر پاور کے پاس جو چیز ہمیشہ نہیں رہی — وہ ہے اپنے ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل کنٹرول۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ کے پاس اب بھی 5 ہزار سے زائد ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، تاہم 32 ایسے حادثات کا ریکارڈ موجود ہے جن میں ایٹمی ہتھیار کو نقصان پہنچا ہو یا کھو گئے ہوں۔

یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ اپنے بعض ایٹمی ہتھیاروں کو گنوا چکا ہے — اور ان میں سے کئی آج تک دوبارہ نہیں ملے۔ یہ وہ خفیہ اور ہولناک واقعات ہیں جنہیں امریکی فوجی اصطلاح میں ”Broken Arrow“ کہا جاتا ہے، یعنی ایسا واقعہ جس میں ایٹمی ہتھیار کا حادثاتی نقصان ہو مگر وہ پھٹے نہیں۔

لیکن ان کا نہ پھٹنا اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ محفوظ بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات میں بعض بم آج بھی دنیا کے کسی کونے میں غائب پڑے ہیں — خاموش، مگر خطرناک۔

1965: نارتھ کیرولائنا کے ساحل پر گمشدہ ہائیڈروجن بم

تاریخ کا سب سے چونکا دینے والا واقعہ 1965 میں پیش آیا، جب ایک امریکی B-52 بمبار طیارہ دو ہائیڈروجن بموں کے ساتھ نارتھ کیرولائنا کے ساحل پر گر کر تباہ ہو گیا۔ ایک بم ملبے سے برآمد کر لیا گیا، مگر دوسرا آج تک لاپتا ہے۔

امریکی فوج نے دہائیوں تک اس مقام کی تلاش جاری رکھی، جدید سونار سسٹمز اور مقناطیسی آلات استعمال کیے گئے، لیکن وہ بم جیسے زمین میں سما گیا ہو — نہ کوئی سراغ، نہ کوئی شور۔ مگر اس کی موجودگی کا خوف امریکی دفاعی حلقوں میں آج بھی سرسراتا ہے۔

1968: اسپین کے ساحل پر آسمانی تصادم

1968 میں ایک اور ہولناک واقعہ اسپین کے ساحل پر پیش آیا، جب ایک B-52 بمبار اور ایک ایندھن فراہم کرنے والا طیارہ فضاء میں ٹکرا گئے۔ بمبار طیارے میں چار تھرمو نیوکلیئر بم تھے۔ تین بم بازیاب کر لیے گئے، مگر چوتھا بم، Mk-28، کبھی واپس نہ آیا۔

یہ بم اب بھی شاید بحیرہ روم کی تہہ میں کہیں پوشیدہ ہے — ایک ایسا سایہ جو نہ دکھتا ہے، نہ بولتا ہے، مگر جس کا خطرہ حقیقی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اگر اس بم سے کبھی تابکار مواد کا اخراج ہوا تو یہ پورے سمندری ماحولیاتی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

1970 کی دہائی: رازوں میں لپٹے حادثات

1970 کی دہائی میں کم از کم دو مزید ”Broken Arrow“ واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں ایٹمی ہتھیار نقل و حمل یا تکنیکی خرابی کے دوران لاپتا ہو گئے۔ مگر ان واقعات کی تفصیلات آج تک ”کلاسیفائیڈ“ ہیں۔ نہ مقام کا علم ہے، نہ حالات کا۔ صرف ایک دھندلا خوف باقی ہے۔

سوالات جو جواب مانگتے ہیں

یہ واقعات امریکی حکومت اور فوج کے ایٹمی ہتھیاروں کے انتظام پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ نہ صرف ان واقعات کی شفافیت کا فقدان ہے، بلکہ ان کے نتائج سے متعلق عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کا موقف رہا ہے کہ ان گمشدہ بموں کے خود بخود پھٹنے کا امکان نہایت کم ہے۔ مگر ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ان بموں کو آج تک بازیاب نہیں کیا جا سکا، تو کیا ہم واقعی ان کی موجودگی سے بے فکر رہ سکتے ہیں؟

ٹرمپ کا جوہری طرزِ حکمرانی

یہ بھی یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور ایٹمی پالیسیوں کے حوالے سے غیر متوقع اور متنازع رہا۔ ایک اے آئی تجزیے کے مطابق، ٹرمپ کا ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق مؤقف ”غیرروایتی سفارت کاری اور حیران کن فیصلوں“ سے بھرا ہوا تھا — جو دنیا بھر میں امریکی پالیسی پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔

ایک خاموش خطرہ

امریکی فوج جدید ترین ایٹمی نظام تیار کر رہی ہے، مگر ان ماضی کے گمشدہ بموں کا کیا؟ وہ آج بھی خاموشی سے کہیں زمین، پانی یا شاید سمندر کی تہہ میں دفن ہیں۔ یہ صرف تاریخ کے گمشدہ صفحات نہیں، بلکہ ایک ایسی گھنٹی ہیں جو ہر لمحہ ہمیں یاد دلاتی ہے — کہ ایٹمی طاقت جتنا غرور دیتی ہے، اتنا ہی خوف بھی۔

یہ ”Broken Arrows“ صرف بم نہیں، یہ انسانیت کے لیے ایک خاموش مگر مسلسل خطرہ ہیں۔ اور جب تک ان کا مکمل سراغ نہیں ملتا، شاید دنیا کبھی مکمل محفوظ نہیں ہو سکتی۔

Similar Posts