امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کی جانب سے ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کے نفاذ کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ فوری طور پر کینیڈا کے ساتھ تمام تجارتی مذاکرات ختم کر رہا ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی تعلقات میں شدید تناؤ کا باعث بن گیا ہے۔
جمعے کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر جاری بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ ’کینیڈا کا ڈیجیٹل ٹیکس ہماری قوم پر براہِ راست اور واضح حملہ ہے۔ اس سنگین ٹیکس کی بنیاد پر، ہم آج سے کینیڈا کے ساتھ تمام تجارتی بات چیت ختم کر رہے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگلے سات دنوں کے اندر کینیڈا کو آگاہ کر دیا جائے گا کہ امریکہ کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے وہ کس شرح پر ٹیرف ادا کرے گا۔
یاد رہے کہ کینیڈا نے 20 جون 2024 کو ڈیجیٹل سروسز ٹیکس ایکٹ منظور کیا تھا، جو 28 جون سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس قانون کے تحت، وہ کمپنیاں جو کینیڈین صارفین سے سالانہ 2 کروڑ کینیڈین ڈالر (تقریباً 14.6 ملین امریکی ڈالر) سے زائد کی آمدنی حاصل کرتی ہیں، ان پر 3 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس ٹیکس کا اطلاق 2022 سے حاصل کردہ آمدن پر بھی ہوگا۔
کاروباری حلقوں نے اس اقدام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خدمات کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور امریکی حکومت کا ردعمل مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، لیکن کینیڈین حکومت نے اب تک مؤقف تبدیل نہیں کیا۔
کینیڈا کے وزیر خزانہ فرانسوا-فیلیپ شیمپین نے حالیہ بیان میں اشارہ دیا تھا کہ یہ ٹیکس امریکہ کے ساتھ وسیع تر تجارتی مذاکرات کا حصہ بن سکتا ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان جولائی میں کسی معاہدے کی امید کی جا رہی تھی، مگر اب ان مذاکرات کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔
ٹرمپ کے اس اعلان کو تجزیہ کاروں نے ”تنازع کی شدت“ قرار دیا ہے۔ ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن کینیڈا کی نائب صدر وینا نجب اللہ کا کہنا ہے کہ ’یہ ٹرمپ کی جانب سے واضح دباؤ ہے، مگر ہم ماضی میں بھی ایسی حکمتِ عملی دیکھ چکے ہیں۔ کینیڈا کو پسِ پردہ سفارتکاری کے ذریعے حل نکالنا ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیجیٹل ٹیکس صرف امریکہ-کینیڈا تنازع کا مسئلہ نہیں بلکہ یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کا بھی مرکزی نکتہ ہے، اور کینیڈا کو یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مؤقف طے کرنا ہوگا۔
ادھر ”سینٹر فار اے نیو امریکن سیکیورٹی“ کی سینئر فیلو ریچل زیمبا نے الجزیرہ کو بتایا کہ ٹرمپ کا بیان حیران کن نہیں بلکہ ایک ”دباؤ کی چال“ ہے، جو یورپی یونین کے لیے بھی ایک تنبیہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کینیڈین مصنوعات پر امریکی ٹیرف نہ صرف کینیڈا بلکہ خود امریکہ کے لیے بھی نقصان دہ ہوں گے، کیونکہ اس سے کاروباری لاگت اور صارفین پر بوجھ بڑھے گا۔
اعدادوشمار کے مطابق کینیڈا، میکسیکو کے بعد امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ گزشتہ سال کینیڈا نے 349.4 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدیں جبکہ 412.7 ارب ڈالر کی برآمدات امریکہ کو کیں۔ ٹرمپ حکومت کی جانب سے پہلے ہی کینیڈین اسٹیل، ایلومینیم اور گاڑیوں پر ٹیرف عائد کیے جا چکے ہیں، جبکہ ملکی معیشت سست روی کا شکار اور بیروزگاری 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
کینیڈین چیمبر آف کامرس کی صدر کینڈیس لائنگ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہماری پوزیشن ڈیجیٹل سروسز ٹیکس پر ہمیشہ واضح رہی ہے، کیونکہ یہ خود نقصان دہ اقدام ہے۔ تاہم، حالیہ مہینوں میں مذاکرات کے ماحول میں بہتری آئی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ پیشرفت جاری رہے گی۔‘