سال 1693 میں لندن کے ایک چھاپہ خانے میں خواتین کے لیے دنیا کا پہلا مخصوص میگزین پرنٹ کیا گیا تھا۔ اس میگزین کا نام تھا ”دی لیڈیز مرکری“ جو 27 فروری کو پہلی بار شائع ہوا اور اس کے ساتھ ہی ابلاغ اور خواتین کی خودمختاری کے ایک نئے دور کی ابتدا ہوئی۔
1690 کی دہائی میں ایک پبلشر جان ڈنٹن اور ان کی ٹیم جو ”ایتھینین سوسائٹی“ کہلاتی تھی، ایک مشہور مشورہ کالم چلاتی تھی جس میں قارئین کی مختلف سوالات کے جوابات دیے جاتے تھے۔
جدید دور میں بھی ہاتھ سے لکھا جانے والا دنیا کا واحد اردو اخبار
اس میں خواتین قارئین نے خاصی دلچسپی ظاہر کی۔ چنانچہ ڈنٹن نے صرف خواتین کے لیے ایک علیحدہ اشاعت کا فیصلہ کیا اور یوں ”دی لیڈیز مرکری“ کی شروعات ہوئی۔ یہ اشاعت خاموشی سے سامنے آئی لیکن اپنے پیچھے ایک نئی راہ چھوڑ گئی۔

اگرچہ اس میگزین کے صرف چار شمارے ہی شائع ہوئے لیکن ان میں خواتین نے ایسے سوالات اٹھائے جو اس دور کے لیے خاصے چونکا دینے والے تھے۔
کسی خاتون نے سوال کیا: ’اگر کسی لڑکی نے شادی سے پہلے جسمانی تعلق قائم کیا ہو تو کیا وہ اپنی پاکدامنی کا دعویٰ کر سکتی ہے؟‘
ایک اور سوال تھا: ’اگر بیوی شوہر سے بے وفائی کرے تو کیا شوہر کو دوسری عورت سے تعلق قائم کرنا اخلاقی طور پر جائز ہے؟‘
میگزین کا انداز نرمی سے لبریز لیکن اپنے وقت کے اصولوں سے متصادم تھا جو کہ ایک خاموش بغاوت کی جھلک تھی۔
کیا حقوقِ نسواں مردوں کے خلاف کوئی مہم ہے؟
یہ اشاعت خواتین سے براہ راست بات کرتی تھی بغیر کسی تکبر یا حقارت کے۔ یہ پہلی کوشش تھی جس نے ثابت کیا کہ خواتین صرف خوبصورتی کی علامت نہیں بلکہ ایک باشعور قاری بھی ہیں جن کے اپنے خیالات، سوالات اور جذبات ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ میگزین صرف چار شماروں کے بعد بند ہو گیا لیکن ایک بیج بو دیا گیا تھا۔ آئندہ برسوں میں ”فی میل ٹیٹلر“ اور ”فی میل اسپیکٹیٹر“ جیسے رسائل نے اسی روایت کو آگے بڑھایا۔
ایک سادہ سا کاغذ کا ٹکڑا جس نے خواتین کی نجی دُنیا اور عوامی مکالمے کے بیچ دیوار میں دراڑ ڈال دی۔ بعد میں خواتین کے میگزین تعلیم، حقِ رائے دہی اور فیمنزم کے لیے پلیٹ فارم بنے۔ لیکن اس تمام تحریک کی چنگاری 1693 میں دی لیڈیز مرکری نے بھڑکائی۔
صحافیوں کی نوکریاں خطرے میں، دنیا کا پہلا مکمل طور پر مصنوعی ذہانت سے تیار اخبار جاری
332 سال پہلے کسی نے فیصلہ کیا کہ خواتین کو بھی اپنی مخصوص آواز دی جائے، محض افواہوں یا فیشن کی بات نہیں بلکہ معاشرتی مکالمے کا برابر کا حصہ دیا جایے۔
یہی جذبہ آج کے بلاگز، میگزینز اور آن لائن گفتگو میں زندہ ہے۔ خواتین کی آوازیں صرف سرگوشیاں نہیں تھیں وہ گرج بن گئیں۔