ایک تحقیق کے مطابق، برص کے مریض صرف جسمانی علامات نہیں جھیلتے بلکہ وہ گہرے ذہنی مسائل، جیسے کہ ڈپریشن، تنہائی اور خودکشی کے خیالات سے بھی گذرتے ہیں۔
دنیا بھر میں تقریباً 7 کروڑ افراد برص (Vitiligo) کا شکار ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے مخصوص حصے سفید پڑ جاتے ہیں، کیونکہ جلد میں رنگ بنانے والے خلیے متاثر ہو جاتے ہیں۔
گلاب کا پانی: آنکھوں کی دیکھ بھال کا ایک قدرتی ٹانک، لیکن احتیاطی تدابیر بھی لازمی ہیں
اگرچہ اسے ایک خودکار مدافعتی بیماری سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے اثرات صرف جلد تک محدود نہیں رہتے۔ اصل تکلیف وہ ہے جو نظر نہیں آتی وہ ذہنی دباؤ، شرمندگی اور معاشرتی تنقید جو مریض روزانہ کی بنیاد پر برداشت کرتے ہیں۔
یہ بیماری خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہے جو عوامی پیشوں میں کام کرتے ہیں، جیسے اساتذہ، سرکاری ملازمین اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد۔
وزن کم کرنے والے انجیکشن سے 10 ہلاکتیں، سیکڑوں افراد نے جسمانی مسائل کی شکایات کے انبار لگا دئے
ماہرین امراضِ جلد کہتے ہیں کہ ایک حالیہ تحقیق ثابت کر دیا ہے کہ برص کو صرف ”خوبصورتی کا مسئلہ“ کہنا بالکل غلط ہے۔
تحقیق کے مطابق، ہر مریض نے بتایا کہ وہ معاشرے میں شرمندگی محسوس کرتا ہے اور اکثر اکیلا رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔
تحقیق سے پتا چلا کہ ان مریضوں میں سے آدھے سے زیادہ افراد ایک نفسیاتی کیفیت ”الیکزتھائمیا“ کا شکار ہو چکے ہیں، جس میں انسان اپنے جذبات کو محسوس یا ظاہر نہیں کر پاتا۔ یہ کیفیت معاشرتی رویوں سے بچنے کے لیے ایک ذہنی ڈھال بن جاتی ہے۔
روشنی میں سونا کس خطرناک ذہنی بیماری کا باعث بنتا ہے؟
ڈاکٹرز کے نزدیک جن مریضوں کے چہرے یا ہاتھوں پر برص کے نشان ہوتے ہیں، ان کے لیے زندگی اور زیادہ مشکل ہو جاتی ہے، کیونکہ یہی وہ حصے ہیں جو لوگوں کی نظروں میں فوراً آ جاتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں رہنے والے اور گہری رنگت والے افراد کو اور بھی زیادہ نفرت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ہماری معاشرتی سوچ کی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
جب انسان خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے، تو تنہائی اور پیشہ ورانہ ناکامی جیسے مسائل بھی سامنے آتے ہیں، جو ذہنی صحت کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔
خوش قسمتی سے جدید سائنس میں برص کے علاج کے لیے نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق بعض نئے مرہم کے ذریعے 58 فیصد مریضوں میں واضح بہتری دیکھی گئی ہے۔ جب ان کا علاج نیرو بینڈ یو وی بی فوٹو تھراپی کے ساتھ کیا جائے تو یہ شرح مزید بہتر ہو جاتی ہے۔
لیکن ڈاکٹرز یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ صرف جلدی علاج کافی نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”اگرچہ علاج کے بعد مریضوں کی ظاہری حالت بہتر ہو جاتی ہے، لیکن ان کے دل اور دماغ پر لگے زخم بدستور رہتے ہیں۔ ذہنی سکون اور جذباتی بحالی کے لیے الگ مدد درکار ہے۔“
برص صرف ایک جلدی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سماجی اور ذہنی چیلنج ہے۔ اس کے مریضوں کو صرف دوا نہیں بلکہ ہمدردی، قبولیت اور ذہنی سپورٹ کی بھی ضرورت ہے۔
جب تک ہم برص کو صرف ظاہری بیماری سمجھتے رہیں گے، تب تک لاکھوں افراد خاموشی سے اندر ہی اندر ٹوٹتے رہیں گے۔