قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات اور وزارت اطلاعات کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے، جس کے نتیجے میں چیئرمین کمیٹی پولین بلوچ نے وزارت کے رویے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے اجلاس برخاست کر دیا۔
پولین بلوچ کی صدارت میں ہونے والا اجلاس اس وقت ہنگامہ خیز صورت اختیار کر گیا جب اراکین نے شکایت کی کہ اجلاس کا ایجنڈا تاخیر سے بھیجا گیا اور بریفنگ بھی فراہم نہیں کی گئی۔
اراکین کمیٹی نے متفقہ طور پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ مسلسل شکایات کے باوجود وزارت کی جانب سے سنجیدگی نہیں دکھائی جا رہی۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ پی ٹی وی میں ہونے والی بھرتیوں اور تنخواہوں کی تفصیلات مانگی گئیں، لیکن وزارت نے فراہم نہیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پوچھا کتنی بھرتیاں ہوئیں اور کن تنخواہوں پر، لیکن جواب ندارد‘۔
سحر کامران نے مزید کہا کہ پی ٹی وی کی حالت اب شالیمار ریکارڈنگ کمپنی سے بھی زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ ’کہا گیا تھا کہ عید سے پہلے تنخواہیں دے دی جائیں گی لیکن وہ بھی نہیں دی گئیں‘۔
چیئرمین کمیٹی پولین بلوچ نے کہا کہ ہم وزارت سے ایٹمی فارمولہ نہیں مانگ رہے، صرف تنخواہوں کے اعداد و شمار مانگے تھے، لیکن وہ بھی چھپائے جا رہے ہیں۔ ہم 19 تاریخ کو یہ تفصیلات مانگ چکے ہیں مگر وزارت تعاون نہیں کر رہی۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم سے رجوع کرنا پڑا تو میں ضرور جاؤں گا، کیونکہ یہ پارلیمنٹ کے وقار کا سوال ہے۔ ہم صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کے ملازمین کو تنخواہیں کیوں نہیں دی جا رہیں۔
رکن کمیٹی امین الحق نے کہا کہ یہ معاملہ صرف یہاں تک نہیں رہنا چاہئے، اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
تمام اراکین نے چیئرمین کمیٹی پولین بلوچ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، جس پر انہوں نے اجلاس فوری طور پر ختم کرتے ہوئے کہا، ’میں اس میٹنگ کی صدارت نہیں کر سکتا کیونکہ وزارت ہماری بات ہی نہیں سن رہی۔ میں اسپیکر کے پاس جا رہا ہوں۔‘
اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پولین بلوچ نے کہا کہ ’ہم پارلیمنٹ کے وقار کو بلند کرنا چاہتے ہیں، وزارت کا رویہ ناقابل قبول ہے، اس پر اعلیٰ سطح پر بات کی جائے گی۔‘