ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای منظر عام پر آگئے

0 minutes, 0 seconds Read

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای طویل عرصے تک انڈرگراؤنڈ رہنے کے بعد منظرعام پر آگئے ہیں۔ انہوں نے ہفتے کے روز تہران کی امام خمینی مسجد میں عاشورہ کی مناسبت سے منعقدہ مذہبی تقریب میں شرکت کی، جو اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد ان کی پہلی عوامی شرکت ہے۔

85 سالہ رہنما کی ویڈیو ایرانی سرکاری میڈیا نے نشر کی، جس میں انہیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ حاضرین نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا جبکہ خامنہ ای نے ہاتھ ہلا کر اور سر ہلا کر ان کے نعروں کا جواب دیا۔ اسرائیل سے جنگ کے آغاز (13 جون) کے بعد وہ عوامی منظرنامے سے غائب رہے تھے اور ان کے تمام بیانات پہلے سے ریکارڈ شدہ نشر کیے جا رہے تھے۔

22 جون کو امریکہ نے اسرائیلی حملوں کی حمایت کرتے ہوئے ایران کے تین اہم جوہری مراکز کو نشانہ بنایا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کہا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں آیت اللہ کہاں ہیں، مگر فی الحال انہیں قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘

26 جون کو سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی صدر کی طرف سے ’ایران کے ہتھیار ڈالنے‘ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے قطر میں امریکی اڈے پر حملہ کر کے امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔‘

ٹرمپ نے بعد میں جواب دیتے ہوئے کہا، ’آپ ایک صاحبِ ایمان انسان ہیں، اپنے ملک میں آپ کو بڑی عزت حاصل ہے، مگر سچ بولنا پڑے گا، آپ کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔‘

ایران نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ جنگ میں 900 سے زائد ایرانی مارے گئے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ ایران کے جوابی میزائل حملوں میں اسرائیل میں کم از کم 28 صیہونی ہلاک ہوئے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان 24 جون کو جنگ بندی نافذ العمل ہوئی۔ اس کے بعد ایران نے اپنے جوہری مراکز کو پہنچنے والے شدید نقصان کی تصدیق کی اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے (IAEA) کو ان مراکز تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔

آئی اے ای اے سے تعاون معطل

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے بدھ کے روز ایک قانون پر دستخط کیے جس کے تحت بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کر دیا گیا۔ جس کے بعد ویانا سے تعلق رکھنے والے ”آئی اے ای اے“ کے معائنہ کار تہران چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔

”آئی اے ای اے“ کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے جمعہ کے روز کہا، ’ہم ایران کے ساتھ جلد از جلد دوبارہ رابطہ بحال کرنا چاہتے ہیں تاکہ جوہری پروگرام کی نگرانی اور تصدیق دوبارہ شروع کی جا سکے۔‘

ایران کا مؤقف

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعرات کو کہا کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کا پابند رہے گا اور ایسی خبروں کو مسترد کیا جن میں ایران کے اس معاہدے سے نکلنے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران اور امریکہ جنگ شروع ہونے سے قبل جوہری معاہدے کے حوالے سے مذاکرات کر رہے تھے۔ امریکہ، سابق صدر ٹرمپ کے 2018 میں JCPOA (جوائنٹ کمپریہنسیو پلان آف ایکشن) سے نکلنے کے بعد، ایک نئے معاہدے کا خواہاں تھا۔

Similar Posts