اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل ایک مذاکراتی وفد قطر روانہ کر رہا ہے تاکہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق تازہ ترین تجویز پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فوج نے غزہ میں بمباری جاری رکھتے ہوئے گزشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 78 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق، وزیر اعظم نے مذاکراتی ٹیم کو اتوار کے روز دوحہ جانے اور ”قریبی بات چیت کی دعوت قبول کرنے“ کی ہدایت دی ہے۔ تاہم بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ حماس کی جانب سے قطر کی تجویز میں جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں وہ اسرائیل کے لیے ”ناقابل قبول“ ہیں۔ ان ترامیم کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت پر ہوئی ہے جب حماس نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ اس نے امریکہ کی ثالثی سے تیار کی گئی جنگ بندی کی تجویز پر ایک ”مثبت“ جواب دے دیا ہے۔ اس تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے جس سے اسرائیلی حملے رکنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جنگ میں اب تک کم از کم 57,338 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 135,957 سے زائد زخمی ہیں۔ غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اور انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
حماس کی شرائط
اردن کے شہر عمان سے الجزیرہ کی نمائندہ حمدہ سلحوث کے مطابق، حماس نے جنگ بندی تجویز میں تین اہم ترامیم مانگی ہیں:
- اگر 60 روزہ جنگ بندی مکمل ہو جائے تو جنگ کے مکمل خاتمے کے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔
- انسانی امداد اقوام متحدہ کی زیر قیادت بین الاقوامی نظام کے تحت دی جائے، نہ کہ امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ Gaza Humanitarian Foundation (GHF) کے ذریعے۔
- اسرائیلی افواج کو غزہ میں کہاں تعینات کیا جا سکتا ہے، اس پر بھی شرائط دی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ ”جی ایچ ایف“ کے تحت امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اب تک 700 سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیل میں اندرونی دباؤ
نیتن یاہو کے اس اعلان کے ساتھ ہی تل ابیب، یروشلم اور حیفا میں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ اور حامیوں نے مظاہرے کیے اور حکومت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل کے مطابق، 7 اکتوبر کے حماس حملوں میں 200 افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں سے تقریباً 50 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 27 کے مردہ ہونے کا خدشہ ہے۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ سیاسی مفادات کی خاطر معاہدہ کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کے بقول نیتن یاہو کی موجودہ دائیں بازو اتحادی جماعتیں کسی معاہدے کے خلاف ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، اور پیر کو وہ وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو سے ملاقات کریں گے۔
اسرائیلی شدت پسندوں کی مخالفت
اسرائیل کے انتہا پسند وزیر قومی سلامتی ایتامار بن گویر نے کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو ”سرنڈر کا راستہ“ قرار دیتے ہوئے مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اگر جنگ بندی میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کی واپسی، یا انسانی امداد شامل ہو تو یہ ”دہشتگردی کا انعام“ ہو گا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’غزہ کی مکمل فتح، انسانی امداد کی بندش اور ہجرت کی حوصلہ افزائی ہی واحد حل ہے۔‘
غزہ میں قیامت کا منظر: ”لوگ صرف کھانے کے لیے مر رہے ہیں“
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ایک اقوام متحدہ کے اسکول اور رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 9 افراد شہید ہوئے۔ الشافی اسکول کی ایک زندہ بچ جانے والی زہوا سلمی نے بتایا کہ ’صبح تقریباً 2:15 پر ایک ہولناک دھماکہ ہوا، لوگ چیخ رہے تھے، لیکن کچھ دیر بعد خاموشی چھا گئی۔‘
جنوبی رفح میں جی ایچ ایف کے امدادی مرکز کے قریب بھی اسرائیلی فائرنگ سے 9 افراد، جن میں تین بچے شامل تھے، شہید ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق، لوگ لاشوں کو اٹھانے سے ڈر رہے تھے کیونکہ انہیں بھی گولی مار دیے جانے کا خطرہ تھا۔
الجزیرہ کے رپورٹر ہانی محمود کے مطابق، ’اب تک 700 سے زائد فلسطینی صرف کھانے کی تلاش میں شہید ہو چکے ہیں۔ یہاں قحط مسلط ہے، مائیں خود بھوکی رہتی ہیں تاکہ بچوں کو کچھ کھانے کو ملے۔ جی ایچ ایف کی امداد صرف ایک نمائش ہے، اس میں نہ انسانیت ہے نہ شفافیت۔‘
ڈبلیو ایف پی کا انتباہ: ”جنگ بندی ناگزیر ہے“
ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر چارلس اسکاو نے غزہ کا دورہ کرنے کے بعد بیان دیا کہ ’یہ سب سے زیادہ بدترین انسانی بحران ہے جو میں نے دیکھا ہے۔ لوگ صرف کھانے کی خاطر مر رہے ہیں۔‘
انہوں نے فوری جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا، ’پچھلی جنگ بندی کے دوران ہم نے 42 دنوں میں 8,000 سے زیادہ ٹرک خوراک غزہ میں پہنچائے۔ ہم دوبارہ یہ کر سکتے ہیں — مگر ہمیں تمام راستے اور سلامتی چاہیے۔‘