کراچی کے ساحل پر جون اور جولائی میں سیپیوں کی بھرمار معمول بن چکی ہے، جو سمندر کی گہرائی سے اُٹھ کر ساحل پر بکھر جاتی ہیں۔ یہ رنگ برنگی مردہ سیپیاں نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کی علامت ہیں بلکہ کئی صنعتوں اور روزگار کا ذریعہ بھی۔
کراچی کے ساحل پر ہر سال کی طرح اس بار بھی جون اور جولائی میں لاکھوں مردہ سیپیاں کنارے پر بکھر گئیں۔
ہوا کا رخ بدلتے ہی سمندر ان سیپیوں کو ساحل پر اگل دیتا ہے، جس سے ریتلا ساحل رنگ برنگی سیپیوں سے سج جاتا ہے۔ یہ دلکش منظر بظاہر قدرتی عمل ہے، مگر ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک خاموش علامت بھی ہو سکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تکنیکی مشیر معظم خان کے مطابق ان سیپیوں، خاص طور پر ”بلڈ کلیم“ نامی شیلز، کو صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن سے کیلشیم کاربونیٹ اور دیگر اشیاء تیار ہو کر قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب شہری بھی ان شیلز میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ کوئی انہیں یادگار کے طور پر جمع کرتا ہے تو کوئی جیولری یا ڈیکوریشن آئٹمز میں استعمال کے لیے خریدتا ہے۔
مرنے کے بعد بھی یہ سیپیاں انسانوں کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں، کبھی زیور کی صورت، تو کبھی ادویات میں استعمال ہو کر انسانی جانوں کے تحفظ کا ذریعہ بنتی ہیں۔