دبئی کے سستے ’گولڈن ویزا‘ کی آفر نے میمز کا طوفان کھڑا کردیا

0 minutes, 0 seconds Read

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے حال ہی میں اپنی گولڈن ویزا پالیسی میں ایک انقلابی تبدیلی کا اعلان کیا ہے، جس نے بھارت اور بنگلہ دیش سمیت پورے ساؤتھ ایشیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ دبئی کی چمکدار زندگی، بلند و بالا عمارات اور ٹیکس فری آمدنی کا خواب اب صرف دولت مندوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ خواب صرف 1 لاکھ متحدہ عرب اماراتی درہم یعنی 77 لاکھ 38 ہزار پاکستانی روپے (23 لاکھ بھارتی روپے) کی ادائیگی سے حقیقت بن سکتا ہے۔

کیا ہے نیا گولڈن ویزا پروگرام؟

پہلے، دبئی میں گولڈن ویزا حاصل کرنے کے لیے کم از کم 2 ملین متحدہ عرب اماراتی درہم یعنی تقریباً 15 کروڑ 48 لاکھ پاکستانی روپے کی سرمایہ کاری ضروری تھی، چاہے وہ پراپرٹی ہو یا کاروبار۔ لیکن اب یو اے ای نے ایک نئی نامزدگی پر مبنی اسکیم متعارف کروائی ہے، جس کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش کے شہری صرف فیس کی ادائیگی سے اس ویزے کے اہل ہو سکتے ہیں۔

یہ موقع کسے دیا جا رہا ہے؟

ریاض گروپ، جو کہ ایک معروف یو اے ای بیسڈ کنسلٹنسی ہے، اس اسکیم کا آغاز بھارت میں کر رہا ہے۔ ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر، ریاض کمال ایوب کے مطابق، ’یہ بھارتی شہریوں کے لیے دبئی میں طویل المدتی سکونت اور کام کا سنہری موقع ہے۔‘

سوشل میڈیا پر میمز کی برسات

جیسے ہی یہ خبر وائرل ہوئی، سوشل میڈیا، خاص طور پر X (سابقہ ٹوئٹر) پر میمز کی ایک طوفانی لہر دوڑ گئی۔

ایک صارف نے لکھا، ’حب الوطنی میرے جسم سے نکل گئی جب میں نے پڑھا کہ دبئی صرف 23 لاکھ میں گولڈن ویزا دے رہا ہے۔‘

ایک اور صارف نے مزاحیہ انداز میں کہا، ’میں تو پہلے ہی بینک میں لائن میں لگا ہوں‘۔

ایک ٹرینڈنگ میم میں لکھا گیا، ’یہ دبئی والا ویزا دراصل بھارت کے امیر طبقے کے لیے آئی کیو ٹیسٹ ہے۔‘

اور ایک اور دلچسپ تبصرہ، ’اگر آپ کے پاس ایک کروڑ روپے ہیں تو آپ 23 لاکھ میں دبئی کا گولڈن ویزا لے سکتے ہیں اور باقی 77 لاکھ سے سپورٹس کار خرید لیں۔‘

یہ ویزا کیا فوائد دیتا ہے؟

گولڈن ویزا دراصل ایک طویل المدتی رہائشی اجازت نامہ ہے جو حامل کو دبئی میں بغیر کفیل (sponsor) کے رہنے کا حق، وہاں کاروبار کرنے یا ملازمت کی آزادی، خاندان کے ہمراہ رہائش، بچوں کو مقامی تعلیمی اداروں میں داخلہ اور بعض اوقات ٹیکس کی چھوٹ جیسی کئی اہم مراعات دیتا ہے۔

پاکستانیوں کے لیے کیا مواقع ہو سکتے ہیں؟

اگرچہ اس وقت یہ اسکیم صرف بھارت اور بنگلہ دیش کے لیے پائلٹ بنیاد پر شروع کی گئی ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس کا تجربہ کامیاب رہا تو جلد ہی پاکستان، نیپال، سری لنکا جیسے دیگر ممالک کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستانی شہریوں کو بھی یہی سہولت صرف 77 لاکھ روپے میں میسر ہو سکتی ہے، جو ماضی کی کروڑوں کی سرمایہ کاری کے مقابلے میں ایک سستی اور ممکنہ راہِ فرار ہے۔

Similar Posts