’ایئرپورٹس خلائی مخلوق کو زمین تک پہنچانے کا زریعہ بن سکتے ہیں‘، نیا تجزیہ وائرل

0 minutes, 0 seconds Read

ہم نے فلموں میں دیکھا ہے کہ جب خلائی مخلوق (ایلینز) زمین پر آتی ہے تو وہ زمین پر اترنے کے لیے کچھ خاص جگہوں کی تلاش کرتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہوائی اڈے، جہاں سے ہمارے جہاز اڑتے اور اترتے ہیں، وہی جگہیں خلائی مخلوق کے لیے ’لینڈنگ اسٹریپس‘ یا اترنے کی جگہ بن سکتی ہیں؟ ایک نئی سائنسی تحقیق نے بالکل ایسا ہی خیال پیش کیا ہے۔

ہوائی اڈے اور فوجی بیسوں پر ریڈار سسٹمز لگے ہوتے ہیں جو ہوائی جہازوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ ریڈارز ایسی الیکٹرو میگنیٹک سگنلز بھیجتے ہیں جو فضا سے باہر خلا میں بھی سفر کر سکتے ہیں۔ یہ سگنلز اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ اگر کہیں کوئی ترقی یافتہ خلائی مخلوق یا سائنسدان ہوتے تو وہ انہیں بڑے ٹیلی سکوپس کی مدد سے دیکھ سکتے تھے۔

تحقیق میں لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے اور نیویارک کے JFK انٹرنیشنل ہوائی اڈے کے ریڈار سگنلز کا کمپیوٹر ماڈل بنایا گیا۔ یہ سگنلز فضاء میں ایسے پھیلتے ہیں کہ قریب ترین ستارے جیسے ’بارنارڈ کا ستارہ‘ اور ’اے یو مائکروسکوپی‘ سے بھی یہ دیکھا جا سکتا ہے۔ بارنارڈ کا ستارہ ہمارے سورج سے تقریباً 6 لائٹ ایئرز دور ہے، یعنی وہاں پہنچنے میں روشنی کو 6 سال لگتے ہیں۔ اے یو مائکروسکوپی بھی ہمارے نظام شمسی سے بہت زیادہ دور نہیں، تقریباً 32 لائٹ ایئرز۔

کیا ایلینز ان سگنلز کو دیکھ کر ہمیں تلاش کر سکتے ہیں؟

اگر واقعی کہیں 200 لائٹ ایئرز کے اندر کوئی ذہین خلائی مخلوق ہے اور ان کے پاس زمین کی طرح ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے، تو وہ ہماری ان ریڈار سگنلز کو دیکھ کر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں کسی طرح کی ذہین زندگی موجود ہے۔ یہ سگنلز ان کے لیے ایک قسم کا ’خبریں پہنچانے والا سگنل‘ بن سکتے ہیں۔

فوجی ریڈار سگنلز: خلا میں روشنی کا مینار

تحقیق کے مطابق فوجی ریڈار سگنلز زیادہ مرکوز اور ایک خاص سمت میں ہوتے ہیں، جیسے کسی مینار کی روشنی جو ایک مخصوص راہ میں گھومتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے یہ سگنلز خلاء میں زیادہ دور تک پہنچ سکتے ہیں۔

یہ تحقیق ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ ہم اپنی ریڈار اور کمیونیکیشن سسٹمز کو کیسے بہتر اور محفوظ بنا سکتے ہیں تاکہ ہمارے سگنلز خلا میں غیر ضروری طریقے سے نہ پھیلیں۔ اس کے علاوہ، یہ سائنسدانوں کو خلائی تحقیق، زمین کی حفاظت، اور زمین کے باہر ٹیکنالوجی کے اثرات پر بھی کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ تحقیق ہمیں دو بڑے سوالات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے، پہلا یہ کیا ہم واقعی کائنات میں اکیلے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ ہماری روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمارے بارے میں خلاء کو کیا پیغام بھیج رہی ہے؟

یہ ممکن ہے کہ ہوائی اڈوں کے ریڈارز سے نکلنے والے سگنلز خلا میں کہیں ایک روشنی کا چراغ بن جائیں جو ہماری موجودگی کا پتہ دے۔ شاید اسی طرح خلائی مخلوق زمین پر آ کر ہماری ملاقات کر سکے۔

Similar Posts