’ڈرفٹنگ‘ اور دماغ سے دماغ تک رابطہ: سائنس فکشن سے حقیقت تک کا سفر

0 minutes, 3 seconds Read

سائنس فکشن فلم ’Pacific Rim‘ میں دکھایا گیا دماغ سے دماغ تک رابطہ، جسے ’ڈرفٹنگ‘ کہا جاتا ہے، محض فلمی تصور نہیں رہا۔ حالیہ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسانوں کے درمیان براہِ راست دماغی رابطہ ممکن ہے، وہ بھی بغیر کسی سرجری یا بغیر کسی میڈیم کے۔

دماغی لہروں کے ذریعے پیغام رسانی

یورپ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے دو افراد کے دماغوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے جوڑا۔ ایک شخص کے دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کو الیکٹریکل سگنلز میں تبدیل کیا گیا اور دوسرے شخص کے دماغ کو بصری اشارات کے ذریعے وہ پیغام موصول ہوا۔ حیرت انگیز طور پر، الفاظ جیسے ”ہولا“ اور ”چاؤ“ ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں منتقل کیے گئے۔

’ہولا‘ دراصل ہسپانوی زبان کا لفظ ہے اور کسی کو ملتے وقت سلام کرنے کے لیے جیسے ’ہیلو‘ یا ’سلام‘ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ جبکہ ’چاؤ‘ اطالوی زبان کا لفظ ہے، اس کو بھی سلام اور الوداع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کو ملتے وقت یا رخصت ہوتے وقت دونوں موقعوں پر۔

اس تجربے میں دو ٹیکنالوجیز استعمال ہوئیں،

  • بی سی آئی (Brain-Computer Interface): دماغ سے کمپیوٹر تک معلومات بھیجنے کا ذریعہ۔
  • سی بی آئی (Computer-Brain Interface): کمپیوٹر سے دماغ کو معلومات واپس بھیجنے کی ٹیکنالوجی۔

یہ دونوں مل کر ایک ایسا نظام تشکیل دیتے ہیں جہاں نہ بولنے کی ضرورت ہے، نہ لکھنے کی، صرف خیال کافی ہے۔ ایک انسان کے دماغ سے نکلنے والی سوچ کو براہِ راست دوسرے انسان کے دماغ میں منتقل کیا جاتا ہے، بغیر بولے، بغیر حرکت کیے۔ یہ ’مائنڈ ٹو مائنڈ‘ یا ’برین ٹو برین‘ رابطہ کہلاتا ہے، جو بغیر کسی جسمانی حرکت کے ہوتا ہے۔ صرف خیالات کی ترسیل۔

5 ہزار میل کی دوری، مگر کوئی فاصلہ نہیں

تحقیق میں شریک افراد بھارت اور فرانس میں موجود تھے۔ ان کے درمیان 5,000 میل کا فاصلہ تھا، لیکن دماغی پیغامات باآسانی منتقل ہوئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے دماغ سے دماغ تک براہِ راست پیغام رسانی ممکن ہو چکی ہے۔

صرف الفاظ نہیں، جذبات بھی منتقل ہوں گے؟

تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ ٹیکنالوجی صرف الفاظ نہیں بلکہ مستقبل میں انسانی جذبات اور احساسات کو بھی منتقل کر سکے گی۔ ’سینس سنتھیسز‘ (Sense Synthesis) یعنی کسی احساس کو مصنوعی طور پر کسی دوسرے انسان کے دماغ میں پیدا کرنا، اب ایک سائنسی ہدف بن چکا ہے۔

معذور افراد کے لیے ایک نئی دنیا

یہ ٹیکنالوجی بولنے یا حرکت کرنے سے قاصر افراد کے لیے انقلابی ثابت ہو سکتی ہے۔ صرف دماغی سرگرمی کے ذریعے دوسروں سے رابطہ ممکن ہو گا، چاہے وہ ایک ہی کمرے میں ہوں یا دنیا کے کسی اور خطے میں۔

اخلاقی اور سماجی خدشات

جب انسانوں کے درمیان بات چیت کا ذریعہ خیالات اور دماغی لہریں بن جائیں، تو کئی سماجی اور اخلاقی سوالات بھی جنم لیتے ہیں:

  • کیا یہ ٹیکنالوجی نجی زندگی پر اثر ڈالے گی؟
  • کیا ذہنی خیالات کو چوری کیا جا سکتا ہے؟
  • کن قوانین کے ذریعے اس کو قابو میں رکھا جائے گا؟

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کے وسیع استعمال سے قبل قوانین اور اخلاقی ضوابط مرتب کرنا ضروری ہوگا۔

”Pacific Rim“ کا تصور حقیقت بننے کے قریب

فلم Pacific Rim میں ’ڈرفٹنگ‘ کے ذریعے دو پائلٹ ایک ہی مشین کو چلاتے ہیں، ان کے دماغ ایک ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔ آج کی سائنس ہمیں دکھا رہی ہے کہ یہ خیال اب فکشن نہیں رہا۔ اگرچہ ابھی ہم جذبات، یادیں، یا گہرے خیالات شیئر کرنے سے کوسوں دور ہیں، لیکن پہلا قدم اٹھایا جا چکا ہے۔

خیالات کی دنیا کا نیا دروازہ

دماغ سے دماغ تک رابطے کی یہ ابتدائی کامیابی سائنسی تاریخ میں ایک سنگِ میل ہے۔ مستقبل میں یہ نہ صرف انسانی رابطوں کو نئی جہت دے گی بلکہ کمپیوٹر اور انسان کے تعلق کو بھی یکسر بدل کر رکھ دے گی۔ اب بات صرف بات تک محدود نہیں رہی ، خیالات ہی نئے الفاظ بننے جا رہے ہیں۔

Similar Posts