سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے حکومت کی جانب سے 30 کروڑ ڈالر کی چینی برآمد کے بعد پھر سے درآمد کرنے کے معاملے پر سوالات اٹھا دیے۔
فواد حسن فواد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ چینی کی 30 کروڑ ڈالر کی درآمد عوامی مفاد میں نہیں لہٰذا اس کا فوراً جائزہ لیا جائے، عام آدمی چینی کا بڑا صارف نہیں بلکہ اصل فائدہ خوراک و مشروبات کی صنعت کو ہے۔
سابق پرنسپل سیکریٹری نے کہا کہ پہلے چینی کی برآمد کی اجازت دی اور اب صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے درآمد؟ فی کس چینی کا استعمال سالانہ 28 کلو گرام ہے اصل مسئلہ مافیا کا کردار ہے، یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے قیمتی زرمبادلہ اس پر خرچ کیوں کیا جا رہا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی قیمتوں پر کنٹرول میں ناکامی درآمد کی دلیل نہیں بن سکتی، عام آدمی نہ مشروبات خرید سکتا ہے اور نہ مٹھائیاں پھر ان کے نام پر درآمد کیوں؟ برآمد کی اجازت دینے پر کیا کوئی جواب دہ ہوگا؟
فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ چینی مافیا، بروکرز اور ذخیرہ اندوزی کی تحقیقات کب ہوں گی؟ کیا ایف بی آر نے پچھلے 5 سال میں چینی کی صنعت کے منافع پر ٹیکس لیا؟ ایف بی آر صرف شوگر سیکٹر کے منافع پر 35 فیصد ٹیکس لے تو خسارہ کم ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل وفاقی کابینہ نے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ کیا۔ وزارت غذائی تحفظ نے کہا کہ پانچ لاکھ ٹن شوگر درآمد کرنے کا فیصلہ حتمی طور پر ہوگیا ہے اور درآمد حکومتی شعبے کے ذریعے کی جائے گی۔
وزارت کا کہنا تھا کہ درآمد کیلیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور اس پر فوری عمل درآمد شروع کیا جا رہا ہے، یہ اقدام قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے کیلیے اٹھایا گیا ہے۔
وزارت غذائی تحفظ کے مطابق درآمد کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ ماضی کی حکومتوں سے مختلف اور واضح طور پر بہتر حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے، ماضی میں اکثر اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قومی خزانے پر بوجھ ڈال کر سبسڈی پر انحصار کیا جاتا تھا۔
وزارت نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ اُس وقت کیا تھا جب چینی وافر مقدار میں دستیاب تھی، لیکن اب چینی کی قیمتوں میں استحکام کے لیے چینی درآمد کی جا رہی ہے۔