تاریخ پاکستان کا گم گشتہ ورق

اگر آج کوئی آپ سے یہ کہے کہ قیام پاکستان کے بعد جد وجہد آزادی کشمیر کو عملی طور پر مدد اور اعانت فراہم کرنے میں سب سے پیش پیش پاکستان کمیونسٹ پارٹی، ملک کے بائیں بازو کے سیاسی حلقے اور سوشل ڈیموکریٹس تھے تو شاید کوئی یقین کرنے کو تیار نہ ہو، لیکن یہ حقیقت ہے۔ جس طرح ہمارے بعض مذہبی حلقوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ کشمیر میں جاری مسلح مزاحمت کی پشت پناہی کرتے ہیں، بالکل یہی بات کمیونسٹوں کے بارے میں بھی کہی جاتی تھی۔ عالمی اور ریاستوں کی داخلی سیاست میں اکثر ریاستی مفاد اُصول اور مبنی بر حق موقف اور مقصد پر غالب آجاتا ہے، اسی لیے حقیقی امن و آشتی کی منزل حاصل نہیں ہو پاتی۔

 یہ کیسے ہوا کہ پروگریسو اور لبرل حلقوں نے کشمیر کی آزادی میں حصہ لیا؟ تحریک پاکستان میں جو جذباتی عنصر شامل ہوا وہ مذہب کا تھا۔ اسے دوام یوں حاصل ہوا کہ 1934ء میں یو۔پی کے انتخابات میں مسلم لیگ نے اکثریتی سیٹیں جیت لی تھیں۔ اس کے باوجود کانگریس نے اعلان کیا کہ صرف انھی نمایندوں کو کابینہ میں شامل کیا جائے گا جو مسلم لیگ چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوں گے۔

تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ وہ موقع تھا کہ جب قائداعظم کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کا تحفظ ممکن نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک پاکستان کو مختلف الخیال، بلکہ متضاد نظریات کے حامل حلقوں کی حمایت حاصل رہی۔

ان میں سرفہرست علی گڑھ موومنٹ سے وابستہ متوسط طبقے کے لوگ تھے جن میں پیشہ ور حضرات اور سرکاری ملازمتوں کا پس منظر رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ اُسی طرح بائیں بازو کے عناصر بھی پاکستان کی حمایت کر رہے تھے حالانکہ مسلم لیگ کے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں اور مذہبی حلقوں کے ساتھ ان کے سنجیدہ نوعیت کے نظریاتی اختلافات تھے۔

آج عمومی تاثر یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کی سیاسی اور عملی جدوجہد کو ہمیشہ سے مذہبی جماعتیں ہی لے کر چل رہی ہیں لیکن یہ بات نئی نسل کو شاید عجیب لگے کہ آغاز میں کمیونسٹ اس جد وجہد کا ہراول دستہ بنے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘ نے برصغیر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی۔ کیونکہ کمیونسٹ پارٹی سمجھتی تھی کہ مسلم لیگ جو قیام پاکستان کا مطالبہ کر رہی ہے وہ مارکسی، لیننی اصولوں کے عین مطابق ہے۔

یہ مطالبہ محض فرقہ وارانہ یا مذہبی تعصب کا نتیجہ نہیں۔ مارکسی اصولوں کا تقاضا ہے کہ زیر دست اقوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی جائے۔ یہ ہدایت ان کو کمیونسٹ انٹرنیشنل یا comintern کی طرف سے آئی تھی، جو کہ اس وقت اشتراکی نظام اور تصور کا مرکز تھی، اور دنیا کی تمام کمیونسٹ پارٹیاں اس سے منسلک تھیں۔ عالمی سیاست کے حوالے سے بھی قیام پاکستان کی حمایت ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔

سوویت یونین(روس) سمجھتا تھا کہ ہندوستان پر برطانوی اثرات نہایت گہرے ہیں۔ جو طبقات آزادی کے بعد ملک کے کرتا دھرتا ہوں گے اُن کے برطانیہ اور مغربی بلاک کے ساتھ انتہائی گہرے روابط پہلے سے موجود ہیں، اس لیے عالمی سیاسی میدان میں ہندوستان مغربی بلاک کے زیر اثر ہی رہے گا۔ لیکن اگر ملک تقسیم ہو جائے تو روس کے لیے بھی خطے میں اپنا اثر و رسوخ بنانے کا موقع پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان کے بائیں بازو کے دانشور اس بات کے حق میں پرجوش دلائل دیا کرتے تھے کہ کسی نواب یا مہاراجہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ریاستی عوام کی مرضی کے خلاف ان کی قسمت کا فیصلہ کر دے۔

 بھارتی مصنف بپن چندرا اپنی کتاب  India’s Struggle for Independence میں لکھتے ہیں کہ کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری پی سی جوشی   کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کے بننے سے انگریزوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ (Divide and Rule) کی پالیسی کو دھچکا لگے گا۔

کامران اصدر علی نے اپنی تحقیقی تصنیف:

 Communism in Pakistan: Politics and Class Activism 1947-1972   : SURKH SALAM میں لکھا ہے، ’’ گو کہ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پاکستان کے قیام کو اور اس کے ساتھ کیمونسٹ پارٹی کی تقسیم کو بھی تسلیم کر لیا تھا لیکن وہ مسلم لیگ کی سیاست کے بارے میں مطمئن نہ تھی۔ پنجاب میں کیمونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے ساتھ نہ صرف اتحاد کر لیا تھا بلکہ 1945-46 کے انتخابات کے لیے ایک بنیاد پرستانہ آئین تشکیل دینے میں بھی شریک تھے‘‘۔ اسی عالمی سیاسی پس منظر نے پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات پر مبنی حکومت قائم کرنے کی اولین کوششوں کو بنیاد فراہم کی۔

پاکستان میں کیمونسٹ پارٹی کی بنیاد سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور میاں افتخار الدین نے رکھی تھی اور سجاد ظہیر کیمونسٹ انٹرنیشنل کی ہدایت پر ہی بھارت چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ پاکستان کے بائیں بازو کے سیاسی حلقوں نے بھی ملک میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے فوج کی مدد حاصل کرنے کا راستہ ختیار کیا کیونکہ انتخابی سیاست کے ذریعے ایسا کرنا ناممکن تھا۔ معروف دانشور خالد بن سعید مرحوم نے اپنی کتاب : Pakistan: The Formative Phase 1857-1948 میں کہا ہے کہ ،’’قیام پاکستان کے بعد بائیں بازو کی سوچ میں اضافہ ہواتھا، جو بعد میں راولپنڈی سازش جیسے واقعات کا سبب بنا۔‘‘

میجر جنرل اکبر خان نے کشمیر کی پہلی جنگ میں جنگجوؤں کی انتہائی کامیابی سے قیادت کی تھی لیکن پورے کشمیر کی آزادی ممکن نہ ہو سکی۔ جنرل اکبر اس بات کے لیے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے تھے۔ ان کی اہلیہ بیگم نسیم جہاں تحریک پاکستان کی ممتاز رہنما جہاں آرا شاہ نواز (المعروف بیگم شاہ نواز) کی صاحبزادی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں ملک میں تبدیلی لانے کے خفیہ منصوبے کا علم تھا اور اُن کی غیر محتاط گفتگو کے باعث یہ بات ان کے منہ سے شاید سہواً نکلی اور کسی نہ کسی طرح سے متعلقہ حلقوں تک پہنچ گئی۔

اس منصوبے میں شامل تمام افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور اس نے ’راولپنڈی سازش کیس ‘ کے نام سے شہرت پائی۔ راولپنڈی سازش کیس میں مختلف لوگ گرفتار کیے گئے جن میں سب سے زیادہ قابل ذکر سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض تھے۔ سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پروگریسو رائٹرز موومنٹ کے اہم رکن تھے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی ہدایت پر پاکستان آئے۔

انھیں یہ ذمے داری سونپی گئی تھی کہ وہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ راولپنڈی سازش کیس میں خاص طور پر سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کے ہاں ایک واضح سوشلسٹ/ اشترا کی رجحان موجود تھا۔ میجر جنرل اکبر خان بھی کسی حد تک ترقی پسند اور بائیں بازو کے خیالات سے ہمدردی رکھتے تھے، مگر وہ بنیادی طور پر قوم پرست (Nationalist) تھے۔ کمیونسٹ قیادت نے جنرل اکبر خان میں وہ شخصیت دیکھی جو ایک سوشلسٹ دوست حکومت قائم کر سکتی تھی۔

Similar Posts