بیوہ ماں کی دعا اور سیلابی علاقوں کی امداد

پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ متاثرین سیلاب کو مختلف نوعیت کی امداد دی جائے گی۔ امدادی چیکس کی تقسیم کا عمل 17 اکتوبر سے شروع کر دیا جائے گا۔ لواحقین فوت شدگان کے لیے 10 لاکھ روپے، پکا گھر مکمل تباہ 10 لاکھ روپے،کچا گھر مکمل تباہ 5 لاکھ روپے، بڑے مویشی کا نقصان 5 لاکھ روپے، چھوٹے جانورکا نقصان 50 ہزار روپے، 20 ہزار روپے فی ایکڑ فصل میں 25 فی صد نقصان پر۔ اور دیگر اعداد و شمار اگرچہ خوبصورت جدولوں میں ٹھہرتے ہیں، مگر ان کے پس منظر میں، عزیز و اقارب بچھڑگئے، کھیت بہہ گئے، مکان گرگئے، مویشی انڈیا سے آئی ہوئی منہ زور لہروں کی نذر ہوگئے،کچھ دیہات ایسے اجڑے کہ ابھی تک ان میں پانی کھڑا ہے۔ حکومت پنجاب نے اعلان تو کر دیا ایک روزنامے میں خبر چھپ گئی کہ 17 تاریخ سے چیکس تقسیم کیے جائیں گے۔

خوشی کی لہر دوڑ جائے گی لیکن ذرا تصور کریں جیسے ہی وہ صبح آئے گی، دیہات کے مرد و زن، بوڑھے، نوجوان، بوڑھی اماں، چاچا، بہت سی بیوائیں اپنے شناختی کارڈ لے کر کسی کے ہاتھ میں اپنے گرے ہوئے مکان کی تصویر،کسی کے پاس اپنے کھیتوں کے کاغذ، ہاتھ میں لیے سرکاری دفتر کے باہر قطار لگی ہوئی نظر آئے گی۔ ارے سیلاب نے ان کو اتنا ستایا، بھوکا سلایا، پیرکی جوتیاں، کپڑے سب کچھ لے گیا۔

وہ مشکلیں کم نہ تھیں کہ اب یہ نئی افتاد آن پڑی کہ کسی سے افسر کہہ رہا ہے۔ بی بی ایک کاغذ کم ہے کل آنا ، چاچا تیری زمین کے کاغذ پورے نہیں، کل آنا، کسی سے کہا تمہارا مکان تو گرا مگر یہ دیوار ابھی کھڑی ہے، اس لیے پورے 10لاکھ نہیں مل سکتے، کسی سے کہتے ہوں گے تمہارے شوہرکا انتقال ہو گیا لیکن نکاح نامہ کہاں ہے؟ صاب، صاب! میری بات سنیں، پورا گاؤں اس نکاح کا گواہ ہے، سب سے پوچھ لیں۔ جب صاحب یہ کہے گا، نکاح نامہ لے کر کل آنا۔ پورے گاؤں والے گواہی کے لیے آواز بلند کر رہے ہوں گے، سب لوگ سن رہے ہوں گے، بس (صاحب) کو سنائی نہیں دے گا،کیونکہ اس نے جو کہہ دیا، بس کہہ دیا۔

بوڑھے بابا کے زمین کے کاغذات دیکھے اورکہا فارم بھرو اور تصدیق کرا کر کل آنا۔ اس طرح اگر ہر ایک نے کل آنا ہے تو اتنے دور گاؤں سے، درمیان کے بہتے ہوئے پانی گزر کر کہیں کشتی میں بیٹھ کر کہیں ننگے پاؤں پانی میں چل کر، کہیں رکشے کا کرایہ 500 یا 1000 روپے بھر کر کس کس طرح کی صعوبتوں، مشکلوں کے ساتھ یہ سائل قطار میں صبح سے شام تک کھڑے ہونے کے بعد جواب ملے کہ کل آنا، کیا ان پر گزرے گی۔

جس کا مکان گر کر ملبے کا ڈھیر بن گیا، چاچا سوالی بن کر کھڑا تھا، صاحب نے کہہ دیا ہوگا یا شاید کہتے ہوں گے فارم بھرو تصدیق کرا کر لاؤ۔ صاحب میرا مکان تو بہہ گیا۔ میرے پاس تو مکان کی گواہی کے لیے کوئی اینٹ بھی نہیں بچی۔ اب کیسے تصدیق کراؤں۔ اب تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں ہے، کل کیسے آؤں؟

کیا اچھا ہوتا کہ پنجاب سرکار خود گاؤں کے دروازوں پر آتی۔ اگر سرکاری گاڑی، گرے مکان کے ملبے کے سامنے رکتی۔ رونی صورت، غم گیر لہجے والے مایوس چہرے والے چاچا کو بلاتی اور کہتی کہ سرکار کو تسلی ہو گئی۔ بھارت کی بھیجی ہوئی قدآدم سے بھی اونچی لہروں نے مکان بھی گرا دیا اور ان دشمن لہروں نے مال و اسباب بھی چرا لیا۔

حکومت کو پوری گواہی بھی مل گئی، تصدیق بھی ہو گئی، چاچا یہ لو10 لاکھ کا چیک اور بینک جا کر کیش کرا لو۔ چاچا شاید یہ کہے کہ آپ کا بہت شکریہ اور صاحب لوگ ہو سکتا ہے یہ کہہ دیں کہ نہیں چاچا بس ایک بار مسکرا دو، ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ کیا خوب منظر ہو سکتا تھا جب کسان کے چہرے پر پہلی بار شکایت کے بجائے شکر ہوتا۔ امداد قطاروں میں کھڑے ہو کر تیز دھوپ بارش برداشت کرکے، بھوکے پیاسے ملتجی نظروں سے دیکھنے کے بجائے سیلاب متاثرین کو عزت کے ساتھ اس کے ٹوٹے ہوئے دروازے پر مل جاتی۔ یہ صرف مالی مدد نہیں ہوتی بلکہ ٹوٹے ہوئے دلوں کی مایوسی، مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتی اور خوشیوں کے ترانے بجا دیتی۔ مسکراہٹیں چہروں پر سجا دیتی۔

کہا گیا کہ فصلوں کے نقصان پر 20 ہزار فی ایکڑ معاوضہ دیا جائے گا اور اسے 25 فی صد نقصان سمجھ کر دیا جائے گا جس کے پورے کھیتوں میں پانی کھڑا ہے۔ اگلی فصل بونے کی امید ختم ہوگئی ہے اسے سہارا دیں کھیتوں سے پانی نکالنے کا انتظام کریں، گارے مٹی،کیچڑ سے کھیت لت پت ہو گئے۔

گندے پانی کی نکاسی کے انتظام کے لیے حکومت فوری مدد کا اعلان کرتی کہ کھیت بیج بونے، ہل چلانے کے قابل بنا دیا ہے۔ یہ رقم ایک لاکھ ابھی کھیت پرکھڑے ہو کر لیں اور اصلی بیج اور کھاد بھی فراہم کر دیا ہے۔ اب یہ جو بیج دیے گئے ہیں یہ سیلابی پانی کی نمی کو برداشت کرنے والے بیج ہیں، عام بیج نہیں ہیں۔ ان کو بو کر اپنی زمین کو سنوارو، گندم کی فصل بونے کا وقت گزرا جا رہا ہے، جلد از جلد یہ کام کر گزرو۔

 پنجاب کے کسان متاثرہ علاقوں کے لوگ آج بھی اس امید کے سہارے زندہ ہیں کہ موجودہ حکومت صرف اعلان نہ کرے بلکہ ان کے دروازوں پر دستک دے۔ اس سلسلے میں غالباً ان بیٹیوں کے لیے کسی امداد کا ذکر نہیں جن کے زیور، جہیز کا ساز و سامان سیلاب کی نذر ہو گئے۔ مگر حکومت کی کسی فہرست میں شاید جہیز کا خانہ نہ تھا، اگر ہو تو فی الحال یہ ناچیز اس سے لاعلم ہے۔ جب افسر کے پاس کسی ماں نے جہیز اور زیورات کے گم ہونے کی عرضی دی ہوگی تو شاید افسر نے کہا ہو، اماں یہ نقصان کس مد میں لکھوں؟ نہ مویشی کا ہے نہ گھر کے ٹوٹنے کا ہے۔ آخر کس مد میں اسے ڈالوں؟

اماں نے دکھ بھرے لہجوں میں کہا ہوگا یہ نقصان نہ کھیت کا ہے نہ گھر کا ہے نہ مال مویشی کا ہے یہ تو ماں کے اجڑے ہوئے دکھ بھرے دل کا ہے جس کی کوئی مد نہیں ہوتی، نہ کوئی حد ہوتی ہے۔

یہ تو ایک بیٹی کے خواب تھے جو ایک بیوہ ماں نے برسوں جوڑنے میں گزار دیے، چند زیورات چند برتن، کچھ کپڑے اور ایک آئینہ جس میں ایک ماں بیٹی کا مستقبل دیکھ لیتی تھی وہ سب بھارت سے آئے ہوئے سیلابی لٹیرے پانی لوٹ کر لے گئے۔ ایک بیٹی اور ماں کے دکھ کو شاید وزیر اعلیٰ پنجاب محسوس کر لے اور ایسی بچیوں کی شادی کا انتظام کرنے کا بھی حکم دے دے۔ شاید 17 اکتوبر سے پہلے ماں کے درد اور بیٹی کی چیخیں لکھنے کا کوئی خانہ، کوئی پیراگراف لکھنے کا حکم صادر ہو جائے۔ پانی بہہ گیا، مگر بیوہ ماں کی دعا اس حکومت کو دینے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔

Similar Posts