یہ گل چھرے کیسے اڑاتے ہیں

ہم اردو لکھتے تو ہیں اور اکثر لوگوں کاماننا ہے کہ اچھی اردو لکھتے ہیں لیکن پھر بھی اہل زبان نہیںہیں ، اس لیے بعض اوقات بعض الفاظ ہمیں پریشان کر دیتے ہیں ۔خیر’’ اہل زبان‘‘ کالفظ بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر گہرائی میں جاکر سوچیں تو اردو کاکوئی بھی اہل زبان نہیں ہے کیوں کہ یہ زبان کسی کی بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ سب کی یاہرکسی کی زبان ہے یایوں کہیے کہ سب کی ہے، اس لیے کسی کی بھی نہیں ہے،اسے اگر ہم کہنا چاہیں تو ایک مجمع البحرین کہہ سکتے ہیں کہ ہر بحر کاپانی اس میں موجود ہے۔

جو لوگ اہل زبان کہلاتے ہیں، وہ بھی اوپر کی پشتوں میں کسی اور زبان کے ہوا کرتے تھے مثلاً غالب ، میر ، خسرو، داغ، سب کے اجداد فارسی تھے۔ خیر تو ہم اپنی بات کرنا چاہتے ہیں کہ کبھی کچھ ایسے الفاظ بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ہم انھیں لکھتے بھی ہیں لیکن ان کے معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتے کیوں کہ ایسے الفاظ اپنے مجازی معنی میں اتنے مشہور ہوجاتے ہیں کہ ان کے اصل اوربنیادی معنی گم ہوجاتے ہیں ۔ ایسے الفاظ میں دوالفاظ اکثر ہمیں چونکاتے اورستاتے ہیں ، ایک ’’گل چھرے‘‘ اوردوسرا ’’رنگ رلیاں‘‘

انھیں ہم اکثر پڑھتے بھی ہیں اورلکھتے بھی ہیں۔لیکن یہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ گل چھرے کیاہوتے ہیں اوررنگ رلیاں کیسی ہوتی ہیں ، رنگ رلیوں کو بھی فی الحال چھوڑدیتے ہیں ، صرف گل چھروں کی بات کرتے ہیں جہاں تک ہمیں معلوم ہے ’’گل‘‘ تو فارسی سے آیا ہے اور پھول کو کہتے ہیں لیکن پھولوں کے ساتھ ’’چھرے‘‘ ؟ یہ تو صاف صاف اجتماع ضدین ہے ، کہاں پھول کہاں چھرے۔ کیوں کہ چھرے تو بندوق کے ہوتے ہیں اوراسی وجہ سے ایک خاص یعنی بارہ بور کے بندوق کوچھریدار کہتے ہیں۔چھریدار سے یاد آیا کہ ایک زمانے میں ہمارے گاؤں کاایک ڈاکٹر بھی ’’ڈاکٹر چھریدار‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا جو لوگوں کو پڑیوں میں گول گول چھرے باندھ کر دیا کرتا تھا یہ چھرے شکر کے ہوتے تھے اورمختلف سائزوں کے ہوتے تھے وہ ان چھروں پر کوئی دوائی ڈال کر دیتا تھا چنانچہ لوگوں میں ڈاکٹر چھریدار مشہورہوگیا تھا۔

ہم اسے ’’گل چھرے ‘‘ سمجھ لیتے لیکن چھرے اوربندوق کے چھرے تو اس سے بھی پہلے موجود تھے پھر ان چھروں کے ساتھ ’’اڑانا‘‘ مستقل استعمال ہوتا ہے اوراسی اڑانے کے لفظ نے سارا معاملہ گڑ بڑ کردیا ہے۔ اگر پھولوں کو بندوق میں ڈال کر اڑایا جائے تو ایسا ہرگھر میں ممکن نہیں۔ کیوں کہ ایک تو تجربہ کار لوگوں کو پتہ ہے کہ بندوق کی نالی میں اگر ذرا بھی کوئی چیز ہوتو نالی پھٹ جاتی ہے اورپھول بھی چل جاتے ہیں ، مطلب یہ کہ کم سے کم یہ جو ’’اڑائے ‘‘جاتے ہیں یہ بندوق کے ذریعے تو نہیں اڑائے جاسکتے اورہم نے قدیم تحریروں میں دیکھا ہے کہ گل چھرے بندوق کی ایجاد سے پہلے بھی اڑائے جاتے تھے خاص طور پر بادشاہ ،ملیکائیں، شہزادے اور شہزادیاں اکثر گل چھرے اڑانے میں مصروف رہتے تھے ۔

اپنے ٹٹوئے تحقیق کو اس راہ پر ڈالتے ہی اچانک ہمیں گل چھرے اڑانے جیسا ایک تاریخی واقعہ مل گیا جس میں ’’چھرے ‘‘ اڑائے گئے تھے۔ عباسی خلیفہ منصورکی بیوی ملکہ ’’خیزران‘‘ سے یہ واقعہ منسوب ہے، ملکہ خیزران سے ایسے اوربھی کئی واقعات موجود ہیں کیوں کہ وہ اپنے دورکی ایک بے مثال ، لاثانی اور بے نظیر خاتون تھی، کچھ راویوں کاکہنا ہے کہ جنتر منتر اورچف تعویزوالی بھی تھی اورخلیفہ منصورکو اس نے اپنے اس منتر سے دبو لیا تھا ۔ایک ضعیف سی روایت یہ بھی ہے کہ وہ ’’بلارہ ‘‘ تھی، بلارہ بٹیربازوں کی اصطلاح میں یہ ایک خاص طریقے سے پالی ہوئی ’’بٹیرنی‘‘ ہوتی ، بٹیربازی کے موسم میں بٹیر باز اس کوکھیتوں میں بنے ہوئے مکان کے اندر رکھ لیتے ہیں اورچاروں طرف جال بچھا کر بلارے کو لٹکادیتے ہیں ،بٹیرنی ساری رات نعرہ لگاتی ہے اوربٹیر اس آواز کو سن کر آتے ہیں اورجال میں پھنستے ہیں ۔خیر تو ملکہ خیزران نے اپنے بیٹے امین کی شادی میں ایک خاص ندرت یہ کی کہ بارات میں چھوٹے کاغذ کے چھرے پھینکتی تھی بظاہر یہ کاغذکی گولیاں ہوتی تھیں لیکن کھولنے پر اس کے اندر ایک موتی ہوتا تھا اورکاغذ پر کوئی عہدہ کوئی جاگیر یاانعام بھی رکھا ہوتا جو پانے والے کو دے دیاجاتا ،ممکن ہے گل چھرے اڑانے کایہ سلسلہ وہیں سے شروع ہوا ہو۔

یقین سے نہیں کہاجاسکتا لیکن امکان ہے کہ ملکہ خیزران کی یہ ایجاد آگے بھی چلی ہو، عربی میں شاید اس کا نام بھی کچھ اورہو اور پھرکسی نے اس کا ترجمہ اردو میں گل چھرے کردیا ہو۔کیوں کہ گل چھرے میں بنیادی معنی وہی ہیں جو مال مفت دل بے رحم میں ہیں ۔

مطلب یہ کہ لفظ کہیں سے بھی آیا ہو کسی نے بھی بنایا ہو گل اورچھرے کاآپس میں جو بھی جائزیاناجائز تعلق ہولیکن یہ بات سو فی صد درست ہے کہ گل چھرے صرف وہی لوگ اڑاسکتے ہیں جن کے ہاتھوں کسی اورکامال لگا ہو ۔باقی آپ خود ہی دانابینا ہے اوروہ لوگ بھی سامنے ہیں جو گل چھرے اڑاتے تھے ۔اڑاتے ہیں اوراڑاتے رہیں گے

ہزاروں رنگ بدلے گا زمانہ

 نہ بدلے گا گل چھروں کااڑانا

Similar Posts