شہد کی مکھیوں کو چھوٹے روبوٹ فوجیوں میں تبدیل کرنے والا ’مائنڈ کنٹرولر‘ تیار

0 minutes, 0 seconds Read

چین کے سائنسدانوں نے حالیہ برسوں میں ایسی ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا ہے جو نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ کچھ حلقوں میں تشویش کا باعث بھی بن رہی ہے۔ بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین نے شہد کی مکھیوں کے دماغ میں انتہائی باریک ڈیوائس نصب کرکے انہیں کنٹرول کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس تحقیق کا مقصد محض سائنسی تجسس نہیں بلکہ اسے مستقبل کی جنگی حکمتِ عملی اور خفیہ مشنز کا حصہ بنانے کی تیاری ہے۔

یہ مکھیاں، جو قدرتی طور پر بہترین پولی نیٹر سمجھی جاتی ہیں، اب جدید سائنسی تکنیک کے ذریعے ’سائبرگ‘ میں بدل دی گئی ہیں۔ ان مکھیوں کی پیٹھ پر ایک 74 ملی گرام وزنی ننھی سی ڈیوائس نصب کی جاتی ہے جو تین باریک سوئیوں کے ذریعے ان کے دماغ میں سگنلز بھیجتی ہے۔ ان برقی تار کے ذریعے مکھیوں کو بائیں، دائیں، آگے یا پیچھے اڑنے کا حکم دیا جاتا ہے، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دس میں سے نو بار مکھیاں ان احکامات پر عمل کرتی ہیں۔

کیا ٹوکیو کی اسمارٹ ٹیکنالوجی فارمنگ دنیا کے غذائی بحران کا حل بن سکتی ہے؟

پروفیسر ژاؤ جی لیانگ، جو اس منصوبے کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ’حشرات پر مبنی روبوٹس قدرتی مخلوق کی مانند اعلیٰ نقل و حرکت، ماحول سے ہم آہنگی، اور چھپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی خوبیاں انہیں شہری جنگ، دہشت گردی کے خلاف کارروائی، منشیات کے خلاف آپریشن اور آفات سے نمٹنے جیسے حساس مشنوں کے لیے بے حد موزوں بناتی ہیں۔‘

اس تحقیق کا ایک اہم پہلو ڈیوائس کی ساخت ہے۔ یہ ڈیوائس، جو دنیا کی سب سے ہلکی ’برین کنٹرولر‘ کہی جا سکتی ہے، پالیمر فلم پر بنائی گئی ہے جو نہایت باریک اور ہلکی ہے، حتیٰ کہ شہد کی مکھی کے پر کی موٹائی جتنی۔ اس کے اندر چپس، انفراریڈ ریموٹ، اور دیگر پرزے شامل ہیں، لیکن اس کا وزن اتنا کم رکھا گیا ہے کہ شہد کی مکھی آسانی سے اسے اٹھا سکتی ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان 5 سالہ ٹیکنالوجی و مہارت کا تاریخی معاہدہ

یہ خیال سنگاپور میں تیار کردہ اسی نوعیت کی ایک ڈیوائس سے لیا گیا تھا جو بھونروں اور لال بیگوں کو کنٹرول کرتی تھی، مگر وہ تقریباً تین گنا وزنی تھی۔ چینی سائنسدانوں نے اس وزن کو کم کر کے اس منصوبے کو زیادہ قابلِ عمل بنایا ہے۔

تاہم، کچھ چیلنجز اب بھی درپیش ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بیٹری کا ہے۔ موجودہ بیٹریز کی زندگی محدود ہے، اور بڑی بیٹریاں مکھی کے لیے بہت بھاری ہو جاتی ہیں۔ مزید برآں، ہر قسم کے کیڑے ایک جیسے سگنلز کا جواب نہیں دیتے۔ اسی لیے ایک ہی ڈیوائس ہر مخلوق پر استعمال نہیں کی جا سکتی۔

پروفیسر ژاؤ کی ٹیم مستقبل میں سگنلز کی نوعیت اور کنٹرول تکنیک کو بہتر بنانے کے لیے تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ حشرات کی نقل و حرکت پر زیادہ درست اور بار بار قابلِ اعتماد کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔

جدید ٹیکنالوجی اور طاقتور دفاعی نظام بے اثر، ایران کے اسرائیل پر حملے برقرار

یہ پیش رفت جہاں ایک طرف سائنسی ترقی کی علامت ہے، وہیں اس پر اخلاقی سوالات بھی اٹھتے ہیں، کیا قدرتی مخلوق کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنا درست ہے؟ کیا اس سے ماحولیاتی نظام پر منفی اثر پڑ سکتا ہے؟ اور کیا یہ ٹیکنالوجی دہشت گردی جیسے خطرناک ہاتھوں میں جا سکتی ہے؟

یہ سوالات ابھی جواب طلب ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے، سائنس کی یہ دوڑ اب صرف مشینوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ زندگی کے سب سے نازک اور خوبصورت مظاہر، جیسے کہ ایک شہد کی مکھی کی پرواز، کو بھی اپنے دائرے میں لے چکی ہے۔

Similar Posts