وزارت سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل کی ترقی نے رواں سال کے پہلے چھ ماہ (یکم جنوری سے 30 جون تک) کے دوران بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (بی آئی او ای) کے ذریعے 3 لاکھ 36 ہزار 999 پاکستانیوں کو روزگار کے لیے بیرون ملک بھجوایا۔ حکام کے مطابق یہ سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہا ہے، کیونکہ ملک میں ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدوروں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
بیورو کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کے روز خبر رساں ایجنسی ”ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان“ (اے پی پی) کو بتایا کہ بیورو کے قیام (1971) سے اب تک 1 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ملک ملازمت کے مواقع فراہم کیے جا چکے ہیں، جنہیں بیورو کے ساتھ باضابطہ رجسٹر کیا گیا۔
حکام کے مطابق 2015 وہ سال تھا جب سب سے زیادہ پاکستانی (946,571) افراد روزگار کے لیے بیرون ملک روانہ ہوئے۔ تاہم 2024 میں بھی دماغوں کے انخلاء (Brain Drain) کا سلسلہ جاری رہا اور سال بھر میں 7 لاکھ 27 ہزار 381 پاکستانیوں نے روزگار کے لیے ملک چھوڑا۔
حکام نے بتایا کہ بیورو کے پاس اس وقت بھی 1 لاکھ 16 ہزار 300 سے زائد بیرون ملک ملازمتیں دستیاب ہیں۔ بیرون ملک ملازمت نہ صرف ملک میں بے روزگاری کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد دے رہی ہے، بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ بھی ہے۔
بیورو آف امیگریشن قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے مالی وسائل نہ صرف قرضوں کی ادائیگی، درآمدی بلز، غربت کے خاتمے، ترقیاتی منصوبوں اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں بلکہ قومی پالیسی سازی میں بھی اس کا بنیادی کردار ہے۔
بیورو ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو نجی شعبے میں کام کرنے والے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز (OEPs) کے ذریعے امیگریشن کے عمل کو کنٹرول، ریگولیٹ اور مانیٹر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ”براہ راست ملازمت“ کے ذریعے بھی افراد خود یا اپنے بیرون ملک رشتہ داروں کی مدد سے ملازمت حاصل کرتے ہیں۔
بیورو کا بنیادی کام سمندر پار ملازمتوں کے لیے جانے والے تمام پاکستانیوں کا جامع ڈیٹا مرتب کرنا، اس کا تجزیہ اور حکومتی اداروں کے لیے پالیسی سازی کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ 1971 سے لے کر آج تک بیورو تمام بیرون ملک ملازمت پر جانے والے پاکستانیوں کا ریکارڈ مرتب کرتا آ رہا ہے۔
بیورو نہ صرف امیگریشن آرڈیننس 1979 کے تحت امیگریشن کو کنٹرول کرتا ہے، بلکہ پاکستانی شہریوں کو بیرون ملک ملازمتوں کے لیے سہولت فراہم کرنے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ اس کا دائرہ کار امیگریشن پالیسیوں پر وفاقی حکومت کو مشورہ دینا، اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی نگرانی، اجازت ناموں کا اجرا، روانگی سے قبل بریفنگ، لازمی انشورنس کوریج اور غیر ممالک سے افرادی قوت برآمد کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔
بیورو اس وقت ”اسٹیٹ لائف امیگرنٹس انشورنس فنڈ“ (SLEIF) کا بھی منتظم ہے، تاکہ بیرون ملک جانے والے پاکستانی مزدوروں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔