سانحہ 9 مئی کے دوران ریاستی املاک اور شہداء کی یادگاروں پر منظم حملے کیے گئے۔ شرپسند عناصر نے سیاسی احتجاج کی آڑ میں ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں ملوث مجرمان کو قانون کے مطابق سزائیں دی گئیں۔ افواجِ پاکستان کی قیادت نے سانحہ 9 مئی کے حوالے سے ہمیشہ ایک واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنایا۔
سانحہ 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے ریاستی اداروں اور افواجِ پاکستان کی قیادت نے واضح موقف اختیار کیا ہے کہ ریاستی املاک اور شہداء کی یادگاروں پر حملے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ایسی کارروائیاں ناقابلِ قبول سمجھی جاتی ہیں۔
9 مئی 2023 کو سیاسی احتجاج کی آڑ میں منظم منصوبہ بندی کے تحت ریاستی اداروں، ملٹری تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے 9 مئی 2024 کو لاہور گریژن میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سانحے کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور حملہ آوروں کو قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اس عزم کا اعادہ 5 مارچ 2024 کی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اس سانحہ کو صرف افواج پاکستان ہی نہیں، بلکہ پوری قوم کا مقدمہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حملہ آوروں کے لیے کوئی معافی نہیں، اور قانون اپنا راستہ لے گا۔
سانحہ 9 مئی میں ملوث مجرمان کو مکمل قانونی تقاضوں اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئیں۔ 21 دسمبر 2024 کو ملٹری کورٹس نے 25 مجرمان کو سزا سنائی، 26 دسمبر 2024 مزید 60 مجرمان کو سزا ہوئی۔ 2 جنوری 2025 کو 19مجرمان کو معافی دی گئی۔
قانون کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالتوں نے بھی سنگین جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دیں، لاہور کی عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور سرفراز چیمہ کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی۔
سرگودھا کی عدالت میں بھی 32 کارکنوں کوسخت سزائیں دی گئیں۔ ریاست واضح پیغام دے چکی ہے کہ بدامنی، انتشار یا قومی وقار پر حملہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔