امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ حماس جنگ بندی نہیں چاہتی ہے ان کے لیڈروں کا شکار کرکے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے، حماس دراصل معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
وائٹ ہاؤس میں جمعہ کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا غزہ سے بہت سے یرغمالیوں کو نکال لیا ہے اور جب آخری یرغمالی بھی نکال لیا جائے گا تو حماس کو معلوم ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا، اسی لیے وہ مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اسی لیے وہ معاہدہ نہیں کرنا چاہتے۔“
جمعرات کو ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اعلان کیا کہ امریکا جنگ بندی مذاکرات سے علیحدہ ہو رہا ہے کیونکہ حماس نے ”معاہدے میں دلچسپی کا فقدان“ ظاہر کیا ہے۔
ادھر اسرائیل نے بھی اپنے نمائندے قطر سے واپس بلا لیے ہیں، جہاں جنگ بندی مذاکرات جاری تھے۔
حماس نے امریکا کے اس مؤقف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ثالثی کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے مخلصانہ کردار ادا کیا ہے۔ گروپ کے مطابق قطر اور مصر جیسے ثالثوں نے بھی اس کے مؤقف کو ”مثبت اور تعمیری“ قرار دیا ہے۔
جنگ بندی مذاکرات کا مقصد 60 روزہ عارضی فائر بندی تھا، جس کے تحت 10 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی بمباری میں وقفہ متوقع تھا۔ حماس نے مذاکرات کے دوران مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔
اگرچہ امریکی ایلچی وٹکوف نے دعویٰ کیا تھا کہ جنگ بندی غزہ میں ”پائیدار امن“ کی طرف ایک قدم ہو گی، مگر اسرائیلی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد وہ دوبارہ جنگ شروع کریں گے اور غزہ سے فلسطینی آبادی کا انخلا مکمل کریں گے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گالانت نے یہاں تک کہا ہے کہ جنگ بندی کے دوران جنوبی غزہ میں ایک بڑے انٹرنمنٹ کیمپ میں لاکھوں فلسطینیوں کو منتقل کیا جائے گا، تاکہ مستقبل میں انہیں غزہ سے نکالنے کی تیاری کی جا سکے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے رواں ماہ واشنگٹن کے دورے میں واضح کیا تھا کہ ”اسرائیل کو ابھی غزہ میں اپنا کام مکمل کرنا ہے۔“
یاد رہے کہ فروری میں صدر ٹرمپ نے بھی غزہ کو ”مشرق وسطیٰ کی ریویرا“ میں تبدیل کرنے اور فلسطینیوں کو وہاں سے نکالنے کی تجویز دی تھی، جسے قانونی ماہرین ”نسلی تطہیر“ اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دے چکے ہیں۔