حال ہی میں امریکی شہر نیویارک کے علاقے مڈٹاؤن مین ہٹن میں ماس شوٹنگ کا ایک تازہ واقعہ پیش آیا جس میں ایک مسلح نوجوان نے 5 افراد کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرلی۔
امریکی حکام نے حملہ آور کی شناخت شین تامورا کے نام سے کی جو 27 سالہ نوجوان اور لاس ویگاس کا رہائشی تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق ایک شخص لمبی بندوق لے کر عمارت میں داخل ہوا اور لابی میں موجود افراد پر فائرنگ شروع کر دی۔ واقعے میں ایک اور پولیس افسر اور ایک شہری زخمی بھی ہوئے جنہیں کمر میں گولیاں لگیں، تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔
امریکہ میں پبلک ماس شوٹنگ کے واقعات کوئی نہیں بات نہیں بلکہ ہر سال اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رواں برس بھی اسکولوں، دفاتر، پبلک مقامات، شاپنگ مالز، عبادت گاہوں، ریسٹورنٹس میں اندھا دھند فائرنگ کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کے اعداد و شمار انتہائی ہولناک ہیں۔
امریکہ میں گزشتہ نصف صدی کے دوران ہونے والی پبلک ماس شوٹنگز کے مرتکب افراد عموماً ذاتی صدمے کا شکار پائے گئے، اور ان واقعات کے وقت وہ اکثر ایک نفسیاتی بحران سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر حملہ آور اپنے منصوبوں کو عوامی سطح پر افشا کرنے کے بعد فائرنگ کرتے۔ اکثر حملہ آور ان اداروں کے اندرونی افراد ہی ہوتے جنہیں وہ نشانہ بناتے، جیسے کہ ملازمین یا طلباء۔
امریکہ میں ماس شوٹنگ کے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟
اسلحہ تک آسان رسائی
امریکہ میں شہریوں کے پاس اسلحہ رکھنے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ فوربز میگزین کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں باآسانی ہتھیار خریدنا اور اِس پر قانونی تحفظ ہونے کے باعث تشدد میں اضافے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ امریکہ میں 18 سال کی عمر کے شخص کو ہتھیار بشمول ایسالٹ رائفلز خریدنے کی اجازت ہے۔ کئی ریاستوں میں ہتھیار لے جانے کے لیے لائسنس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
ذہنی صحت کے مسائل اور سماجی تنہائی
امریکہ میں ڈپریشن، یا سماجی طور پر الگ تھلگ رہنے والے افراد ماس شوٹنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس قسم کے لوگ اسلحہ آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر کہیں افرا تفریح پھیلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت، بے روزگاری، تعلیمی مواقعوں کی کمی کے باعث افراد خود کو معاشرے سے الگ محسوس کرتے ہیں، جس سے ان کے اندر نفرت یا احتجاجی جذبات جنم لیتے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ نصف صدی کے دوران ہونے والی پبلک ماس شوٹنگز کے مرتکب افراد عموماً ذاتی صدمے کا شکار پائے گئے، اور ان واقعات کے وقت وہ اکثر ایک نفسیاتی بحران سے گزر رہے تھے۔
شہرت کی جستجو
ایک رپورٹ کے مطابق بعض حملہ آور شہرت یا اہمیت حاصل کرنے کے لیے جان لیتے ہیں۔ میڈیا پر حملہ آوروں کا اجاگر ہونا بعض افراد کو اچھا نام حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
امریکہ کی دو بڑی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے اسلحہ کے حوالے سے مؤقف رکھتی ہیں۔
ریپبلکن پارٹی کا مؤقف
ریپبلکن پارٹی عموماً اسلحہ کے حق کی حمایت کرتی ہے اور اسلحہ کی خریداری پر محدود پابندیاں لگانے کے خلاف ہے۔ وہ دوسری ترمیم (Second Amendment) کو اہمیت دیتے ہیں، جو امریکی آئین کے مطابق شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا حق دیتی ہے۔ اس پارٹی کا ماننا ہے کہ ہر فرد کو اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کا مؤقف
ڈیموکریٹک پارٹی اسلحہ پر کنٹرول کی حمایت کرتی ہے اور اس کے مطابق عوامی تحفظ کے لیے گن کنٹرول قوانین ضروری ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی عوامی حفاظت، گن وائلنس کے خاتمے اور اسلحہ کی خریداری کے حوالے سے سخت قوانین کی حامی ہے۔
امریکا میں عوامی ماس شوٹنگ کے اعداد و شمار
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف جسٹس میں جاری سال 2022 تک کے ڈیٹا بیس میں شامل 172 افراد سے متعلق بتایا گیا جو عوامی ماس شوٹنگ میں ملوث پائے گئے، ان میں سے 97.7 فیصد افراد مرد تھے جن کی عمریں 11 سے 70 سال کے درمیان تھیں، اور اوسط عمر 34.1 سال تھی۔ ان افراد میں 52.3 فیصد سفید فام، 20.9 فیصد سیاہ فام، 8.1 فیصد لاطینی، 6.4 فیصد ایشیائی، 4.2 فیصد مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے جبکہ ایک 1.8 فیصد مقامی امریکی تھے۔
ڈیٹا بیس کے مطابق اکثر افراد جو ماس شوٹنگز کے مرتکب ہوئے، ان کا ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ موجود تھا، جن میں سے 64.5 فیصد افراد پر پچھلے جرائم کا الزام تھا اور 62.8 فیصد افراد کا ماضی میں تشدد کا ریکارڈ پایا گیا، گھریلو تشدد میں ملوث افراد 27.9 فیصد کیسز میں پائے گئے، جبکہ 28.5 فیصد افراد کا فوجی پس منظر بھی تھا۔
زیادہ تر افراد جو عوامی ماس شوٹنگز میں ملوث ہوئے، وہ شوٹنگ کے مقام پر ہی ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 38.4 فیصد نے خودکشی کی اور 20.3 فیصد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے ہلاک کیا۔
امریکا میں ماس شوٹنگز کے مقامات
2022 کے ڈیٹا بیس میں شامل عوامی ماس شوٹنگز کی تفصیلات کے مطابق دفاتر میں 30 فیصد، بار یا ریسٹورنٹ میں 13.4 فیصد، رہائشی مقام پر 8.1 فیصد، اسکولز میں 7.6 فیصد، کالج یا یونیورسٹی میں 5.2 فیصد، عبادت گاہوں میں 6.4 فیصد اور حکومتی اداروں میں 3.5 فیصد ماس شوٹنگز کے واقعات رونما ہوئے۔
امریکہ میں ماس شوٹنگز کے 1982 سے 2024 تک کے اعداد و شمار
جرمن ویب سائٹ اسٹیٹسکا کے اعداد و شمار کے مطابق سال 1982 سے ستمبر 2024 تک امریکہ میں 151 ماس شوٹنگز میں سے 82 حملے سفید فام افراد نے کیے۔ اسی دوران، 26 حملے افریقی امریکیوں نے اور 12 حملے لاطینی افراد نے کیے۔