غزہ میں شدید غذائی قلت سے متعلق عالمی اداروں کی جانب سے ایک نیا انتباہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ فوری اقدامات نہ کرنے سے یہاں بڑے پیمانے پر اموات ہو سکتی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق خوراک کی کمی کے باعث روزانہ کی بنیاد پر کئی بچے اور بڑے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر غزہ میں کمزور بچوں کی تصاویر اور بھوک سے ہونے والی درجنوں اموات کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی دباؤ سامنے آنے کے بعد اسرائیل نے ہفتے کے اختتام پر اقدامات کا اعلان کیا جن میں غزہ کے بعض حصوں میں روزانہ انسانی امداد کے لیے جنگ بندی اور فضائی امدادی سامان کی فراہمی شامل ہے۔
تاہم اقوام متحدہ اور فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صورتحال میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا
اور بھوک سے بلگتے لوگوں کا ہجوم امدادی سامان کی ترسیل سے قبل ہی ٹرکوں کو لوٹ کر انہیں ان کے مقاصد تک پہنچنے سے روک رہا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسفیکیشن (IPC) نے کہا ہے کہ غزہ دو سال سے قحط کے دہانے پر تھا اور حالیہ پیش رفت نے صورت حال کو مزید بدترین کر دیا ہے، جس میں اسرائیل کی جانب سے کڑی پابندیاں بھی شامل ہیں۔

رسمی قحط کا اعلان بہت کم ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ قسم کے اعداد و شمار درکار ہوتے ہیں جو غزہ تک رسائی کی کمی اور وہاں کی نقل و حرکت کی مشکلات کی وجہ سے فراہم کرنا ممکن نہیں ہیں۔ IPC نے قحط کا اعلان چند بار کیا جن میں 2011 میں صومالیہ، 2017 اور 2020 میں جنوبی سوڈان، اور گزشتہ سال سوڈان کے مغربی دارفر کے بعض حصے شامل تھے۔
تاہم آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے اعلان کی ضرورت نہیں کیونکہ جو کچھ وہ غزہ میں دیکھ رہے ہیں، وہ خود ہی قحط کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا غزہ میں قحط سے انکار، ٹرمپ کا اختلاف
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں قحط یا بھوک کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی اسرائیل کی کوئی ایسی پالیسی ہے جو بھوک پر مبنی ہو۔
نتین یاہو کا کہنا تھا کہغزہ میں کوئی بھوک نہیں، ہم جنگ کے دوران بھی انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں، ورنہ وہاں کوئی غزہ کا رہائشی بچا نہ ہوتا۔
پیر کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو تصاویر سامنے آ رہی ہیں ان میں نظر آنے والے بچے ”انتہائی بھوکے“ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کا مؤقف زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل نے گزشتہ ہفتے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے عارضی وقفوں، فضائی امداد کی ترسیل اور دیگر اقدامات کا اعلان کیا تاہم مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ زمینی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔
اقوام متحدہ نے ان اقدامات کو صرف ایک ہفتے کے لیے امداد کی رفتار میں معمولی اضافہ قرار دیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ اقدامات کب تک جاری رہیں گے۔
ایک فلسطینی شہری حسن الزعلان جو ایک فضائی امداد کے مقام پر موجود تھے، انہوں نے صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح امداد دینا فلسطینیوں کی توہین ہے۔ کچھ لوگ سامان کے لیے لڑ رہے تھے اور فرش پر چنے کے کچلے ہوئے ڈبے بکھرے پڑے تھے۔
دوسری جانب اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس امدادی سامان فلسطینی عوام تک پہنچنے نہیں دیتی اور اسے اپنی حکومت چلانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کا مؤقف ہے کہ اگر غزہ میں مناسب مقدار میں امداد پہنچائی جائے تو لوٹ مار کا رجحان خود بخود ختم ہو جاتا ہے، اور یہ کوئی منظم عمل نہیں ہے۔
غزہ میں انسانی بحران تاحال جاری ہے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے امداد کی فوری اور مؤثر ترسیل پر زور دیا جا رہا ہے۔