عالمی عدالت نے سرب دہشت گرد راتکو ملاڈچ المعروف ”بوسنیا کا قصاب“ کی قبل ازوقت رہائی کی درخواست مسترد کر دی۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سربرینیتسا قتل عام کے مرکزی کردار راتکو ملاڈچ کی صحت کی بنیاد پر رہائی کی اپیل مسترد کی گئی۔
عالمی فوجداری عدالت کی جج کے مطابق ملاڈچ کی بیماری فوری موت کے زمرے میں نہیں آتی۔
سرب رہنما رادوان کرادچ کو چالیس سال کی سزا سنادی گئی
اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے بین الاقوامی ٹربیونل نے بدھ کے روز بدنام زمانہ بوسنیائی سرب فوجی کمانڈر راتکو ملاڈچ کی صحت کی بنیاد پر قبل از وقت رہائی کی درخواست مسترد کر دی۔
ملاڈچ کو 1992 سے 1995 کی بوسنیا جنگ کے دوران سریبرینیتسا نسل کشی اور سرايوو محاصرے میں ہزاروں افراد کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالتوں کے میکانزم کی جج گراسیلا گاتی سانتانا نے کہا کہ 83 سالہ ملاڈچ کی صحت کی حالت ’’شدید مہلک بیماری‘‘ کے معیار پر پوری نہیں اترتی جو رہائی کی بنیاد بن سکے۔
سربیا میں حکومت مخالف مظاہرے، صدر نے وزیراعظم کو قربان کردیا
جج نے کہا، ”اگرچہ ملاڈچ روزمرہ کے معمولات میں دوسروں پر انحصار کرتا ہے اور اس کی حالت نازک ہے لیکن وہ اب بھی مکمل اور ہمدردانہ طبی نگہداشت حاصل کر رہا ہے، جیسا کہ میڈیکل رپورٹس سے ظاہر ہے۔“
ملاڈچ، جسے ”بوسنیا کا قصائی“ کہا جاتا ہے کو 2017 میں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس نے جون 2025 میں رہائی کی درخواست دائر کی تھی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کے پاس جینے کے لیے صرف چند ماہ بچے ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ملاڈچ کی جانب سے پیش کیے گئے ”ہمدردانہ انسانی بنیادوں“ کے دعوے ثبوتوں سے ثابت نہیں ہوتے۔
یاد رہے کہ ملاڈچ کو 2011 میں سربیا سے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں وہ 16 سال تک مفرور رہا۔ وہ اب ہیگ میں قید ہے۔ اس کا بیٹا ڈارکو ملاڈچ اکثر سرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے والد کی خراب صحت کا ذکر کرتا ہے۔ ملک میں اب بھی کچھ قوم پرست حلقے راتکو ملاڈچ کو ہیرو مانتے ہیں۔
واضح رہے کہ 1995 میں سربیا میں 8,000 سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کے قتل کو یورپ میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد بدترین نسل کشی قرار دیا جاتا ہے۔
ملاڈچ کا شمار اس خونی جنگ کے مرکزی کرداروں میں ہوتا ہے، جس نے یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے دوران نسل پرستی کی بنیاد پر خونی تصادم کو جنم دیا۔