کیا پاکستان واقعی بھارت کو تیل بیچ پائے گا؟ ٹرمپ کے اعلان نے پاکستان میں تیل کے ذخائر پر بحث چھیڑ دی

0 minutes, 2 seconds Read

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان میں موجود ”بڑے تیل کے ذخائر“ اور انہیں نکالنے سے متعلق معاہدے کے اعلان نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے: کیا پاکستان واقعی اتنا تیل رکھتا ہے کہ وہ ایک دن بھارت کو برآمد کرسکے؟

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر اعلان کیا کہ امریکا اور پاکستان ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد پاکستان کے ”وسیع“ تیل ذخائر کو ترقی دینا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’کیا معلوم، شاید ایک دن وہ بھارت کو تیل بیچیں!‘

یہ بیان اس وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا نے بھارت پر 25 فیصد درآمدی ٹیرف عائد کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اعلان صرف توانائی سے متعلق نہیں بلکہ ایک واضح جغرافیائی سیاسی پیغام بھی ہے۔

کیا پاکستان کے پاس واقعی بڑے تیل ذخائر ہیں؟

اگرچہ ٹرمپ نے ”massive reserves“ (بڑے ذخائر) کا دعویٰ کیا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔

یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA) اور ورلڈومیٹر (Worldometer) کے مطابق، پاکستان کے پاس 2016 تک 353.5 ملین بیرل کے ”ثابت شدہ“ تیل ذخائر تھے، جو دنیا میں 52 ویں نمبر پر آتے ہیں اور عالمی ذخائر کا صرف 0.021 فیصد بنتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان روزانہ تقریباً 88 ہزار بیرل تیل پیدا کرتا ہے، جبکہ کھپت 5 لاکھ 56 ہزار بیرل یومیہ ہے، یعنی ملک کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 85 فیصد تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔

”بڑے ذخائر“ کی گونج کہاں سے اٹھی؟

ٹرمپ کے دعوے ممکنہ طور پر حالیہ جغرافیائی سروے پر مبنی ہیں جو پاکستان کے ساحلی پانیوں میں کیے گئے تھے۔ تین سالہ سروے کے دوران انڈس بیسن کے نیچے زیر زمین ایسے ڈھانچے دریافت ہوئے جن میں تیل اور گیس کے امکانات پائے گئے۔ کچھ غیر مصدقہ اندازے بتاتے ہیں کہ اگر ان ذخائر کی تصدیق ہو گئی تو پاکستان، وینزویلا، سعودی عرب اور ایران کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا تیل کے ذخائر والا ملک بن سکتا ہے۔

 پاکستان کے زمینی علاقے میں واقع لوئر انڈس بیسن میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تقسیم (ڈیٹا ماخذ: آئی ایچ ایس مارکِٹ)
پاکستان کے زمینی علاقے میں واقع لوئر انڈس بیسن میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تقسیم (ڈیٹا ماخذ: آئی ایچ ایس مارکِٹ)

2024 میں، پاکستان کی وزارت توانائی نے اعلان کیا کہ ٹو ڈی اور تھری ڈی سیزمک ڈیٹا سے حاصل شدہ نتائج نے ”کافی“ تیل کے امکانات ظاہر کیے ہیں، خاص طور پر ”مرے رِج“ (Murray Ridge) کے علاقے میں، جہاں بھارتی اور یوریشین پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔

’فرق نہیں پڑتا، اپنی مردہ معیشت بھلے ڈبو دو‘: ٹرمپ بھارت پر شدید غصہ

انڈس بیسن کا جیولوجیکل اسٹرکچر ٹیکٹانک پلیٹوں کی حرکت سے تشکیل پایا ہے اور یہاں موٹے مٹی والے پتھر (Mudstone) کی تہیں موجود ہیں جو مستقبل میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے امید افزا ہیں۔ 2024 میں وزارتِ توانائی نے ایک بڑے سمندری سروے کے ابتدائی نتائج میں ’’قابلِ ذکر ہائیڈرو کاربن امکانات‘‘ کا دعویٰ کیا۔

تاہم، ماہرین بشمول اوگرا کے سابق رکن محمد عارف اور او جی ڈی سی ایل کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ یہ ابھی صرف ”امکانات“ (Resources) ہیں، ”ثابت شدہ ذخائر“ (Reserves) نہیں۔ ان کے مطابق، جب تک تجارتی بنیادوں پر دریافت، منصوبہ بندی اور پیداوار نہ ہو، کسی بھی امکان کو ذخیرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ماہرین کے مطابق ان دریافتوں کو تیل کے ذخائر تسلیم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ وہاں کھدائی ہو، پیداوار شروع ہو، اور اس کے لیے مکمل ڈیولپمنٹ پلان موجود ہو۔ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔

نئی دریافتیں: امید کی کرن یا مبالغہ؟

2024 میں سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کچھ نئی دریافتوں کی خبریں سامنے آئیں۔ ایک ماہ قبل پاکستان کی سرکاری آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی (او جی ڈی سی ایل) نے سندھ میں نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ 2023 اور 2024 میں خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی دو بڑی دریافتوں کا اعلان کیا گیا تھا۔

او جی ڈی سی ایل کی رپورٹ کے مطابق، پاساکھی، راجیان، کنار، سونو، تھورا، جھندیال اور لاشاری سینٹر جیسے علاقوں میں دریافتیں ہوئی ہیں، مگر ابھی تک ان میں سے کسی بھی جگہ سے کمرشل بنیاد پر تیل نکالا نہیں جا سکا۔

عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق، پاکستان نے 2024 کے آخر تک اپنے تیل کے ذخائر میں 23 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جو 238 ملین بیرل تک پہنچ گئے ہیں۔

پاکستان میں تیل کی تلاش کی تاریخ

ٹوٹ آئل فیلڈ (پنجاب): یہ 1960 کی دہائی میں دریافت ہوئی تھی، جس کا ذخیرہ اندازاً 60 ملین بیرل ہے، مگر اس کا صرف 12 سے 15 فیصد نکالا جا سکتا ہے۔

سندھ کے نچلے علاقے: یہاں 1980 کی دہائی میں تیل دریافت ہوا اور پاکستان کے بیشتر زمینی تیل کی پیداوار یہاں سے ہوتی ہے۔

سوئی گیس فیلڈ (بلوچستان): یہ 1952 میں دریافت ہوئی، مگر صرف گیس کا ذریعہ ہے، تیل نہیں۔

بھارت کو تیل کی فروخت: حقیقت یا خواب؟

ماہرین کے مطابق، بھارت کو تیل بیچنے کا خیال فی الوقت محض قیاس آرائی ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں:

  1. پاکستان کے ذخائر غیر یقینی اور غیر ترقی یافتہ ہیں۔
  2. پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
  3. بھارت پہلے ہی مشرق وسطیٰ اور روس سے بڑے پیمانے پر تیل خریدتا ہے۔
  4. پاکستان کی موجودہ ریفائنری صلاحیت صرف 4 لاکھ 50 ہزار بیرل یومیہ ہے، جو اپنی ہی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔

سرمایہ کاری اور سکیورٹی کے مسائل

ماہرین کے مطابق، ان ذخائر کو صرف دریافت کرنے اور ترقی دینے پر کم از کم 5 ارب ڈالر اور 4 سے 5 سال کا وقت درکار ہوگا۔ مزید برآں، تیل نکالنے، پائپ لائنز بچھانے، بندرگاہیں بنانے اور ریفائنریز تیار کرنے پر اربوں ڈالر کی مزید سرمایہ کاری درکار ہوگی۔

پاکستان کی اقتصادی صورتحال جس میں 126 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اور 17.5 ارب ڈالر کا سالانہ توانائی درآمدی بل شامل ہے، اس بڑے منصوبے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

چین کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟

پاکستان میں تیل کی تلاش میں امریکی دلچسپی چین کے لیے پریشان کن ہوسکتی ہے۔ چین نے سی پیک کے تحت توانائی اور بندرگاہوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، خصوصاً بلوچستان میں، جہاں چینی انجینئر اور پروجیکٹس موجود ہیں، پہلے ہی حالات کشیدہ ہیں۔ اگر امریکا بلوچستان یا ساحلی علاقوں میں تیل منصوبے شروع کرتا ہے، تو چین اور امریکا کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے اور پاکستان کیلئے ایک سفارتی مسئلہ بن سکتا ہے۔

اعلان حقیقت سے بہت دور

ٹرمپ کے اعلان نے پاکستان کو بین الاقوامی توانائی منظرنامے میں نئی توجہ ضرور دلائی ہے، مگر وعدے اور حقیقت کے درمیان ایک طویل فاصلہ ہے۔ ماہرین کے مطابق، فی الحال پاکستان کا تیل مستقبل قیاسی، غیر مصدقہ اور غیر تجارتی نوعیت کا ہے۔ جب تک تجارتی ڈرلنگ کے نتائج سامنے نہیں آتے، ذخائر کی تصدیق نہیں ہوتی، اور اقتصادی و سفارتی رکاوٹیں دور نہیں ہوتیں، تب تک بھارت کو تیل فروخت کرنے کا خیال محض ایک سیاسی نعرہ ہی رہے گا۔

Similar Posts