بھارت کی سرکاری آئل ریفائنریز نے روسی تیل کی خریداری روک دی۔ اس کی وجہ روسی تیل پر دی جانے والی چھوٹ میں کمی اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روسی تیل خریدنے والوں کو بھاری محصولات (ٹیکس) کی دھمکی ہے۔
دی ماسکو ٹائمز کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کو انڈسٹری ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ دو اہم وجوہات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ روسی تیل پر دی جانے والی چھوٹ میں کمی، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روسی تیل کے خریداروں پر 100 فیصد درآمدی محصولات کی ممکنہ دھمکی شامل ہے۔
بھارت کی سب سے بڑی سرکاری ریفائنری، انڈین آئل کارپوریشن جو ملک کی 20 میں سے 10 ریفائنریز چلاتی ہے، ان کمپنیوں میں شامل ہے جنہوں نے روسی تیل کی خریداری روک دی ہے۔ ہندستان پیٹرولیم، بھارت پیٹرولیم اور منگلور ریفائنری اینڈ پیٹروکیمیکلز جیسے دیگر سرکاری اداروں نے بھی یہی راستہ اپنایا ہے۔
ریفائنری حکام کے مطابق اب سپلائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھارت نے مشرق وسطیٰ کے اوپیک ممالک اور مغربی افریقہ سے تیل کی خریداری میں اضافہ کر دیا ہے۔
یہ تبدیلی ایک بڑے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد بھارت نے بڑی مقدار میں سستا روسی تیل خریدا، جس سے ماسکو کو یورپی مارکیٹوں میں ہونے والے نقصانات کی تلافی میں مدد ملی۔
تاہم، بھارت کی نجی کمپنیاں جیسے ریلائنس انڈسٹریز اور نایارا انرجی، اب بھی روسی تیل کی بڑی خریدار ہیں۔ خاص طور پر نایارا، جو روس کی سرکاری کمپنی روسنیفٹ کی جزوی ملکیت ہے، یورپی یونین کی تازہ ترین پابندیوں کے دائرے میں آ چکی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں خبردار کیا تھا کہ اگر روس 8 اگست تک یوکرین کے ساتھ امن معاہدے پر نہیں پہنچتا تو روسی تیل خریدنے والے ممالک کو سخت تجارتی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے بعد بھارت کی سرکاری ریفائنریز نے یہ قدم اٹھایا۔