ڈھاکہ کی گلیوں میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج رہی تھی۔ عبدالرّحمٰن طریف گھر کی طرف بھاگ رہا تھا، جب اُس نے فون پر اپنی بہن مہرالنساء کی آواز کو یکایک خاموش ہوتے سنا۔ اُس لمحے اُسے محسوس ہوگیا کہ کوئی سانحہ رونما ہو چکا ہے۔
جب وہ گھر پہنچا تو خون میں لت پت مہرالنساء کو اپنے والدین کی گود میں پایا، تب اسے یقین ہوگیا کہ انقلاب کا خمیازہ اُن کے گھر کی دہلیز پر آ چکا ہے۔ گولی اُس کی بہن کے سینے میں پیوست ہو چکی تھی۔ مہر النّساء ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہاں ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔
23 سالہ مہرالنساء 5 اگست 2024 کو اس وقت جاں بحق ہوئیں جب شیخ حسینہ کے خلاف ملک گیر طلبہ تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اسی دن سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں، اور ان کے 15 سالہ دورِ حکومت کا اختتام ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے عوام نے اس لمحے کو جشن کے طور پر منایا، لیکن طریف جیسے ہزاروں نوجوانوں کے لیے یہ خوشی غم کا لبادہ اوڑھے تھی۔

تین دن بعد نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے عبوری حکومت سنبھالی۔ وعدہ کیا گیا کہ ملک کو اصلاحات کے بعد نئے انتخابات کی طرف لے جایا جائے گا۔ مگر آج، ایک سال گزرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش سیاسی انتشار، انتقامی سیاست، اور سماجی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ شیخ حسینہ پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ بھارت میں جلاوطنی کے دوران چل رہا ہے، لیکن ہزاروں شہدا کی قربانیوں کے باوجود عوامی توقعات تشنہ ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ (اے پی) کے مطابق، ہیومن رائٹس واچ کی ایشیائی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کہتی ہیں، ’ایک سال قبل جن لوگوں نے شیخ حسینہ کے ظالمانہ اقتدار کے خلاف قربانیاں دیں، ان کا خواب اب تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔‘
رپورٹ کے مطابق طریف اور اُن کی بہن نے بھی ان مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ ان کے ایک چچا زاد بھائی کو سیکیورٹی فورسز نے گولی مار دی تھی، جس کے بعد وہ بھی سڑکوں پر نکل آئے۔

بیس سالہ طریف کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف انصاف اور برابری چاہتے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ کسی حکومت کو لوگوں پر جبر کرنے کا حق ہو، مگر آج میں مایوس ہوں۔‘
عبوری حکومت نے اصلاحات کے لیے 11 کمیشن قائم کیے، لیکن سیاسی جماعتوں میں اختلافات برقرار ہیں۔ انتخابات کے شیڈول پر اتفاق تاحال نہیں ہوسکا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں مذہبی گروہوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، جب کہ عوامی لیگ کے کارکنوں کو اب بھی سیاسی انتقام کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 24 کارکن پولیس کی حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں ماضی میں ہونے والے کچھ مظالم رک گئے ہیں، وہیں ’سیاسی انتقام اور اقلیتوں پر تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہیں‘۔ یونس حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف کہانی سنا رہے ہیں۔

طلبہ قیادت نے نئی سیاسی جماعت تشکیل دے دی ہے، جو آئین کی مکمل تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جبکہ اسلامی جماعتیں، جو حسینہ دور میں دباؤ میں تھیں، اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے حال ہی میں ڈھاکہ میں طاقت کا مظاہرہ کیا، جس سے ماہرین کو تشویش لاحق ہے کہ ملک مذہبی حکومت کی طرف دوبارہ نہ چلا جائے۔
”اے پی“ کے مطابق، مہرالنساء کے والد مشرف حسین کہتے ہیں کہ ’یہ صرف حکومت بدلنے کا مسئلہ نہیں تھا، یہ بغاوت اس آزادی کے لیے تھی جو ہمیں 54 سال بعد بھی نصیب نہ ہو سکی۔‘
اور طریف کی زبان پر ایک ہی التجا ہے، ’میں ایسا بنگلہ دیش چاہتا ہوں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام ایمانداری سے کریں، جہاں حکومت کسی کو لاپتا نہ کرے، جہاں میں آزادی سے بول سکوں… جہاں میری بہن جیسی مائیں اپنی بیٹیوں کے جنازے نہ اُٹھائیں۔‘
لیکن بنگلہ دیش میں وہ صبح کب طلوع ہو گی، یہ سوال آج بھی فضا میں معلق ہے۔