سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھارت کا نام لئے بنا اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی روس کے خلاف جاری یوکرین جنگ میں ”پیوٹن کی خونخوار جنگی مشین“ کو تیل کی خریداری کے ذریعے مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کی کھل کر حمایت کی ہے۔
بورس جانسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا، ’ڈونلڈ ٹرمپ نے جرات مند، اصولی اور منطقی قدم اٹھایا ہے۔ بالآخر ان ممالک کو سزا دی جا رہی ہے جو پیوٹن کی درندگی کی مالی پشت پناہی کر رہے تھے۔‘
خیال رہے کہ ٹرمپ نے ایک اور صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر مزید 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے، جو گزشتہ ہفتے نافذ کیے گئے 25 فیصد ٹیرف کے علاوہ ہے۔ اس طرح بھارتی درآمدات پر مجموعی ٹیرف اب 50 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ 7 اگست سے نافذ ہو چکا ہے جبکہ بقیہ ڈیوٹی 21 دن بعد لاگو ہو گی۔ اس فیصلے کے بعد بھارت اب برازیل کے ساتھ امریکی مارکیٹ میں سب سے زیادہ ٹیرف کا سامنا کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
انہوں نے یورپی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے تنقیدی انداز میں کہا، ’یورپی لیڈر ٹرمپ کو روس کے لیے نرم رویے کا طعنہ دیتے ہیں، لیکن تین سال بعد بھی اگر کسی نے بھارت سے قیمت وصول کی ہے تو وہ صرف ڈونلڈ جے ٹرمپ ہیں۔‘
ٹرمپ روس سے امریکا کی یورینیم خریداری پر لاعلم نکلے، بھارت کا منافقت کا الزام کتنا درست؟
بورس جانسن کے ان بیانات نے بھارت کے اُس جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کر دیا ہے جس کے تحت وہ خود کو امن پسند اور مغرب کا اتحادی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، جب کہ درپردہ وہ روسی تیل خرید کر یوکرین میں قتل و غارت کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں برطانیہ کا دورہ کیا اور موجودہ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ طے پایا۔ مگر بورس جانسن کے مطابق مودی کی یہ سفارت کاری دراصل عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
ٹرمپ کا بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگانا بلیک میلنگ ہے، راہول گاندھی
بھارت کی وزارت خارجہ نے حسب روایت امریکا کے اس فیصلے کو ”بدقسمتی“ قرار دے کر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کا اعادہ کیا۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق بھارت ایک جانب روس سے سستا تیل خرید کر اپنی معیشت چلا رہا ہے، جبکہ دوسری جانب مغرب سے رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اب امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی قوتیں اس دوغلے رویے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
ٹرمپ کے اس اقدام نے نہ صرف بھارت کو عالمی سطح پر شرمندہ کیا ہے بلکہ یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ اگر بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی اور معاشی رویے پر نظر ثانی نہ کی تو اسے مزید عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔